اقوام متحدہ میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے تنازع کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کشمیر میں امن کی ضرورت پر زور دیا، جیسا کہ انہوں نے قبرص، شام، یمن، میانمار اور افغانستان سمیت تنازعات پر ترکی کے موقف کا خاکہ پیش کیا، امید ظاہر کی کہ امن قائم ہوگا۔
یہ جنرل ڈیبیٹ اقوام متحدہ کی سالانہ تقریبات میں سے ایک ہے اور عالمی رہنماؤں 15 منٹ کی تقریروں کے ذریعے بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پیش کرتی ہے۔
اردگان نے مزید کہا کہ دوسری پیش رفت جو جنوبی ایشیا میں علاقائی امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کرے گی، وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت اور تعاون کے ذریعے کشمیر میں ایک منصفانہ اور دیرپا امن کا قیام ہوں گی۔
افغانستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ افغانی عوام جو نصف صدی سے مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، انہیں سیاسی مقاصد سے قطع نظر انسانی امداد اور مدد کی اشد ضرورت ہے۔
صدر نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کی ایک جامع انتظامیہ میں تبدیلی ہو، جس میں معاشرے کے تمام طبقات کو منصفانہ نمائندگی حاصل ہو، بین الاقوامی میدان میں افغانستان کے مثبت استقبال کی راہ ہموار کرے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ عالمی امن کے لیے طاقت کے توازن کو درست کرنا ہوگا، ہمیں ماضی کی بڑی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیئے، دنیا کو روس یوکرین جنگ کی وجہ سے خوراک کی کمی کاسامنا ہے۔
یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے منشور پر مکمل عملدرآمد سے امن قائم ہوسکتا ہے، ہمیں ماضی کی بڑی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیئے، عالمی امن کے لیے طاقت کے توازن کو درست کرنا ہوگا، ہمیں عالمی امن کے درپیش مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ دنیا کو روس یوکرین جنگ کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے، دنیا کو یوکرینی گندم اور خوراک کی اشد ضرورت ہے، غریب اور ترقی پذیرممالک کو عالمی امداد کی ضرورت ہے، عالمی مالیاتی نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، افغان عوام کو عالمی مدد کی ضرورت ہے، افغان عوام طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکاررہے ہیں۔
انہوں نے فلسطین سے متعلق کہا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رہائش پذیرعوام امن چاہتے ہیں، فلسطین اسرائیل تنازع کا حل 2 ملکی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے، ہمیں مشترکہ ترقی پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہورہی ہیں، موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کے لیے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہیں، عالمی حدت کے ہمارے ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں، ہمیں گرین ہاؤس گسیز کے اخراج کو کم کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی حدت میں کمی کے لیے جی 20 ملکوں کو پہل کرنا ہوگی، ہم طویل عرصے تک زیرزمین توانائی کے ذرائع پر انحصار نہیں کرسکتے، افریقی خطے کا بڑاحصہ اکیسویں صدی میں بھی بجلی سےمحروم ہے، ہمیں عالمی گرین فنڈ کے قیام کےلیے اقدامات تیزکرنا ہوں گے۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور امریکی صدر اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوں، عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ عالمی تنازعات سے ایک بلین کے قریب آبادی متاثر ہورہی ہے، اقوام متحدہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار جاری رکھے، دنیا میں اقوام متحدہ کے مختلف منصوبے امن سمیت مختلف شعبوں کی بہتری کےلیے کردارادا کررہے ہیں۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ہندوستان چیپٹر کی ترجمان مارگریٹ میک لوڈ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا، محولیاتی تبدیلی اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے استحکام اور اصولوں کے حوالے سے بات چیت کی۔
اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے اپنے خطاب میں سوال اٹھایا کہ عالمی برادری فلسطینیوں کی حمایت کیوں نہیں کر رہی جبکہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں اپنی غیر قانونی بستیوں کو بڑھا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”ہماری مدد کے محتاج لوگوں کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو قابلِ اعتبار بنانے کے لیے عالمی یکجہتی کہاں ہے؟“
انہوں نے یہ بھی کہا کہ علاقائی سلامتی اور ترقی کی کوئی عمارت اس تنازع کی سلگتی ہوئی راکھ پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔