جمعیت علماء اسلام ایف کے سینیٹر اور سینئر ماہر قانون کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان شروع ہوگیا بینچ کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور لیگل ٹیم کے رکن و قانون داں شعیب شاہین نے کہا کہ فل کورٹ اچھا فیصلہ ہے پہلے بھی بننا چاہیے تھا ہر کیس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، سپریم کورٹ تقسیم کا شکار ہے۔
انھوں نے کہا کہ فل کورٹ سماعت طویل مدت بعد ہوئی، پہلی بار سماعت براہ راست نشر کی گئی، امید ہے کہ اقدام ادارے کیلئے اچھے ہوں گے۔
کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ ’فل کورٹ بہت مشکل تجربہ ہوتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے بینچ کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کا امتحان شروع ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ چیف جسٹس کو امتحان میں کامیاب کرے‘۔
سینئر ماہر قانون کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ 63 اے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور لیگل ٹیم کے رکن و قانون داں شعیب شاہین نے کہا کہ فل کورٹ اچھا فیصلہ ہے پہلے بھی بننا چاہیے تھا ہر کیس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کی بات آئی تو فل کورٹ کے مطالبے نے زور پکڑا، دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف فیصلے کے وقت بھی فل کورٹ کا مطالبہ ہوا لیکن ان دنوں ججز کی چھٹیاں تھیں اس لئے فل کورٹ نہیں بن سکتا تھا اس کا اظہار بھی اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیا تھا۔
شعیب شاہین نے کہا کہ اچھا ہوتا اگر فل کورٹ بنتا تو اس کا فیصلہ کم از کم زیادہ تسلیم کیا جاتا اور جس نے عدالتی فیصلہ نہیں ماننا تھا وہ فل کورٹ کا فیصلہ بھی نہیں مانتا کیونکہ مقتدر حلقوں نے فیصلہ کیا تھا کہ الیکشن نہیں ہونے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کوئی فیصلہ آئین و قانون کے خلاف نہیں تھا، فیصلے درست تھے لیکن اس کے اندر جو دو تین چیزیں کم رہیں جسے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو اس کا عدلیہ کے وقار کو جو نقصان ہوا وہ نہ ہوتا۔
شعیب شاہین نے مزید کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والی شخصیت کے مالک ہیں، امید ہے کہ وہ 90 روز میں یا نوے روز کے قریب الیکشن کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔
ماہر قانون حسن ایوب نے کہا کہ آج فل کورٹ بیٹھ گیا کون سی قیامت آگئی لیکن ماضی میں فل کورٹ نہیں بنایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ 184(3) کا اختیار جسٹس عمر عطا بندیال استعمال کرتے رہے ہیں جو بینچ وہ تشکیل دیتے تھے، آپ اور میں پہلے بتا دیتے تھے کہ فیصلہ کیا متوقع ہے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ انصاف تھا کیا یہ طریقہ کار تھا۔ اس طریقے سے عدلیہ کو چلایا گیا تو پھر پہلے آپ کے ججز نے ریمارکس دیے جس میں ججز کے درمیان تقسیم نظر آئی اور پھر اس کے بعد جوڈیشل نوٹ میں بھی اختلافات سامنے آئے۔