سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف فل کورٹ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے ہم یہاں انتظامی اختیارات کی بات کر رہے ہیں، یہ قانون عدلیہ کومزید جمہوری اقدار کا حامل بناتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، یہ قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، اور اس قانون سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آٸین پاکستان 1973میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا، صدر کی منظوری سے قوانین بنتے تھے تو کیا صدر کا اختیار تھا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ صدر کا صوابدیدی اختیار تھا یا ایڈواٸس پر منظوری ہوتی تھی، آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر بات شروع کی تھی، اور درخواست گزار کے وکیل کے نقاط پر بات شروع کردی، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ عوامی خدشات کو دور کرتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت عوامی مفاد کے کیسز سنے جا سکتے ہیں، درخواست گزاروں کا اعتراض قانون پر نہیں، طریقہ پرہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہےکہ کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہائیکورٹ سنے تو کیا مناسب ہوگا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کیس میں 184(3) کی شرائط پوری ہوتی ہیں۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ 184(3) میں حقوق کے نفاذ کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق قانون درخواست گزاروں کی سہولت کیلئے بنایا گیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک فراہمی بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 184/3 میں ہمیں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔
جسٹس یحیٰی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ درخواستگزار انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ انصاف تک رسائی یقیناً سب کا حق ہے، معاملہ فل کورٹ کے سامنے ہے اس لٸے مدعا رکھا ہے۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کررہی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس یہ ہے ہی نہیں کہ قانون بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔
جسٹس اعجاز الا احسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے، بنیادی حقوق کے معاملے پہلے ہاٸیکورٹ نہیں جانا چاہیے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے بھی کہا کہ ہاٸیکورٹس سپریم کورٹ سےمتعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کیلئے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے، سپریم کورٹ سے متعلق بات نہیں کرتا، اس قانون سازی سے متاثرہ فریق کون ہوگا، کس کو اس ایکٹ سے نقصان پہنچ رہا ہے، ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات میں تقسیم ہوئے۔
وفاقی حکومت کی پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مستردکرنے کی استدعا
آپ نے ہمیں قائل کرنا ہے ہم نے آپ کو نہیں، چیف جسٹس کے اٹارنی جنرل کوریمارکس
فل کورٹ کیلئے درخواستیں منظور، از خود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کیلئےتیار ہوں، چیف جسٹس
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ میں اپنے پہلے سوال پر دوبارہ آتی ہوں، یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے، فل کورٹ کے خلاف اپیل کہاں جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال بہت اہم ہے میں بھی یہی سوچ رہا تھا، کیا اس قانون سے جرح یا انصاف کا حق واپس لیا گیا۔
جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ انصاف تک رسائی کو بدلا جا رہا ہے تو کیسے حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی شق ہے جو پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ“لاء“کی تعریف میں آتاہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل10 اے زرا پڑھ لیں تاکہ ہماری یاداشت تازہ ہو جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے میں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بات اس بنیادی اصول کی ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے اپنے الگ الگ خیالات ہیں آپ آگے چلیں، آپ نے ہمیں مطمئن کرنا ہے ہمیں آپ کو نہیں، آئین کو پڑھنا ہو گا ایک دو الفاظ کو لیکر بیٹھ جانا درست نہیں، آرٹیکل 10 اے شہریوں کے لئے ہےسپریم کورٹ کے نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بات اصول کی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں ایک اپیل کا حق آئین دیتا ہے۔ کیا دوسری اپیل کا حق سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کونسی شق پارلیمنٹ کودوسری اپیل کاحق دینےسےروکتی ہے۔ جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کامینڈیٹ ہائیکورٹ میں کیسےچیلنج ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام سوالات نوٹ کر لیے ہیں بعد میں جواب دوں گا، میری نظر میں قانون کا ایک ہی مطلب ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ مطلب ایک ہی ہے تو آئین میں کہیں ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کہیں قانون کا لفظ کیوں استعمال ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دیا گیا فیصلہ بھی قانون ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال نہیں ایک بیان ہے جس سے میں متفق نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ عدالت کا فیصلہ حاوی ہوگا یا پارلیمنٹ کا قانون۔ جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ججز کا بنایا گیا قانون بھی قانون ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ آگے چلیں ہمیں جوچاہے فیصلہ لکھیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ قانون بن سکتاہے، ہر قانون ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا، میرا صرف ایک سوال ہے کہ درخواستگزاروں سے کون سا حق لیا گیا۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ مسٹراٹارنی جنرل یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے فل کورٹ بلانے سے انکار کیا، فل کورٹ نے رولز بنانے سے انکار کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاججمنٹس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا 1980 کے رولز قانون ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1980کے رولز قانون نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نےآپ کو ہمالیہ جیسی عدالتی غلطی کا بتایا، کیا 6 ارب ڈالر کی مثال دینا کافی نہیں، سپریم کورٹ کے موجودہ رولز آئین سے متصادم ہیں، سول پٹیشن اورسول اپیل سے متعلق رولز آئین سے متصادم ہیں، اگر چیف جسٹس بینچ نہ بنائے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا، 4 سال سے فل کورٹ میٹنگ نہیں ہو رہی تھی، سپریم کورٹ رولز کو چیلنج بھی کیا جا سکتاہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کےرولزبھی آئین وقانون کےمطابق بنتےہیں، پہلے قانون موجود نہیں تھا اب بن گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراض اٹھایا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم عوام سے کیسز کا فیصلہ کرنے کی تنخواہیں لے رہے ہیں، اور سپریم کورٹ میں روزانہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، میں یہ سارا وزن نہیں اٹھانا چاہتا، وزن اپنے ساتھیوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں، اس بات کا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ممکن ہے پارلیمان کہے 3 ججزنہیں، بیلٹنگ کے ذریعے بینچ ہونا چاہئے، یاپارلیمان کہے3 نہیں سب ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان خلا میں کام نہیں کرتی، اپوزیشن بھی ہوتی ہے، سٹے کے باوجود میں نے 2 سینئر ججز سے مشاورت کی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں کوئی مفروضوں ہر مبنی سوال نہیں کر رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ بینچ کے بنانے کے بعد مقدمات کون مقرر کرےگا۔