دینِ اسلام نے بیٹیوں کو رحمت کہا ہے جن کا ہونا والدین کیلئے کسی خوش نصیبی سے کم نہیں ہوتا لیکن بدقسمتی سے بیٹیوں سے متعلق ایک دقیانوسی سوچ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے ذہنوں پر نقش ہے۔
’جیہز کی تیری کب شروع کریں گے؟، بیٹی کو کتنا پڑھائیں گے؟‘، یہ وہ جملے ہیں جو بیشتر والدین کو سُننے پڑھتے ہیں۔
ایسی دل برداشتہ کردینے والی باتوں کی وجہ سے والدین اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے بارے میں خاصا فکر مند ہوتے ہیں۔
لیکن غورطلب بات یہ ہے کہ شادی سے پہلے ساس بہو کے رشتے سمیت دیگر سسرالی رشتہ داروں کی خطرناک تصویر کشی کرنے والوں کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے بیٹیوں کو شادی کے بعد آسانی سے ایڈجسٹ ہونے کیلئے رہنمائی کریں۔
والدین اپنی بیٹیوں کو اس بات پر مطمئن کریں کہ اپنے والدین کے گھر سے چلے جانے کے بعد ان کیلئے اس گھر میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔
خواتین عمرہ زائرین کے لباس پرسعودی عرب نے نئے ضوابط جاری کردیے
40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین یہ عادات لازمی اپنائیں
ملازمت پیشہ خواتین کیلئے محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے خوشخبری
یہ انہیں تحفظ کا احساس فراہم کرے گا کہ آپ اُن کی ضرورت کے وقت ہمیشہ اپنی بیٹی کے لیے موجود رہیں گے۔
ہر بیٹی کے لیے انجان لوگوں کے درمیان ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنے سسرال والوں کے ساتھ احترام اور محبت کے رویے کی اہمیت سیکھائیں۔
انہیں اس بات کا بھی حوصلہ دیں کہ یہ راتوں رات نہیں ہوگا لیکن وہ انہیں سمجھنے اور ان سے محبت کرنے کی کوشش ضرور کرے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں، لیکن اگر اپنی بیٹی کو تمام منفی چیزوں سے خوفزدہ کریں گے تو وہ خوفزدہ رہتے ہوئے اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے گی، جو آگے چل کر ان کیلئے مشکل کا سبب بن سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شادی صبروتحمل کا بھی سفر ہے، والدین اپنی بیٹیوں کو رشتوں کی اہمیت سمجھانے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ان کے علم میں لائیں کہ رشتوں کو سمجھنے میں صبروتحمل بہت اہم ہوتا ہے۔
والدین کا تعاون زندگی کے ہر پہلو میں بیٹیوں کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔ لہذا انہیں کبھی بھی اکیلا محسوس نہ کرنے دیں۔ آپ کو انہیں یقین دلانا ہے کہ آپ ہمیشہ ان کے لیے موجود رہیں گے۔
اپنی بیٹیوں کو یہ بات لازمی باور کروائیں کہ شادی کے بعد نیا سفر شروع کرنے کا مقصد نہ صرف نیا گھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے بلکہ اپنا اور اپنی ذات کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔
اگر وہ اپنا وقت اور توجہ دیگر لوگوں کو دے رہی ہیں توانہیں اپنے مشاغل اور مقاصد کو بھی اہمیت دینی ہے۔
ازدواجی زندگی جہاں آپ کی زندگی میں تبدیلیاں لاتی ہے تو وہیں یہ ایک وقت لینے والا مرحلہ بھی ہوتا ہے۔ جیسے انسان کو اپنے گھر کے علاوہ کہیں سکون نہیں ملتا، بلکل ویسے ہی بیٹیوں کیلئے بھی فوراً کسی نئے گھر میں رہنا آسان نہیں۔
اپنی بیٹیوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ ابتداء میں ان کیلئے یہ مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے لیکن چند ماہ بعد ان کا یہ نیا گھر ان کے لیے ”اپنا گھر“ بن جائے گا۔