سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فل کورٹ ریفرنس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہاں ہم نے غلطیاں کیں، ریکوڈک ہو یا ذولفقار بھٹو کیس ہم سےغلطیاں ہوئیں، ہمارا مسئلہ ہے کہ انا بڑی بن گئیں، ہم نے مارشل کی توثیق کی،ہمیں ملک کا بھی سوچنا چاہیئے، اگر چیف جسٹس مقدمات پر بینچ نہ بنائے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا،سول پٹیشن اور سول اپیل سے متعلق رولز آئین سے متصادم ہیں، میں نے آپ کو ہمالیہ جیسی عدالتی غلطی کا بتایا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف فل کورٹ میں سماعت ہوئی اور سرکاری ٹی وی سے سماعت براہ راست نشر کی گئی، فل کورٹ میں سپریم کورٹ کے تمام 15ججز شامل تھے۔ تقریباً دن بھر جاری رہنے والی سماعت شام کے وقت 3اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے بعد جاری تحریری حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پربینچزبنانے سے متعلق حکم امتناع ختم کردیا اور ایکٹ کےمطابق چیف جسٹس دو سینیئر ججز سے مشاورت کرکے بینچ تشکیل دیں گے۔
سماعت کا وقت ساڑھے 9 بجے مقرر تھا لیکن یہ تقریباً پونے 12بجے شروع ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیے کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیرہوئی، تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے پاکستان بارکونسل کی فل کورٹ کی درخواست منظورکرلی ہے اور ہم نے بارکونسل کی درخواست پر فل کورٹ بنا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا اس کیس میں 9 درخواستیں ہیں اور اس کیس میں دلائل کون کون دے گا، کوشش کریں کہ دلائل کو محدودرکھیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ماضی کو دفن کردیں، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے معاملہ سنا ہی نہیں۔
درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔ جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب اپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا اس پر آپ کیا دلائل دیں گے۔ جس پر وکیل خواجہ طارق نے کہا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں ان کا کیا ہوگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ کوسننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمار مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، پارلیمنٹ قادر مطلق (omnipotent) ہے کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا آپ فوکس رکھیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی کو بھول جائے، آج کی بات کریں، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کاحصہ ہوں گے، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کے فل کورٹ بنایا جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگر قانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا۔ فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کاحق دیا گیا ہے اس پرعمل نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنے دلائل دیں اور بینچ ممبر کے سوال کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولزبنارکھے تھے، لیکن پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کااختیار آئین سے مشروط ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے خواجہ طارق رحیم کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب جوکچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں، آپ آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں۔
چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو ادھر ادھر کی باتیں کررہے ہیں اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف اختیار کیا کہ انتظامی طور پر کیسے چلانا ہے، فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز بیٹھ کر رولز بناتے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں، کیا آپ ایک آفس کو اتنےاختیارات ہونے کی حمایت کرتے ہیں۔
وکیل طارق رحیم نے کہا کہ بینچز سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کے کرنےکا ہے، سپریم کورٹ کئی دہائیوں سے اپنے رولز خود بناتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ سپریم کورٹ رولز کو غیرآئینی قرار دے رہے ہیں، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں، کیا جہاں اختیار ایک یا 3 ججز کا ہے وہ غیر آئینی ہے۔
خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ میرانکتہ ہےکہ رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار ہے پارلیمان کا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور سے متعلق ہے، اس قانون سے عدالت کواپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، عدالتی اختیارات کا فیصلہ کس نے کرنا ہے، میرے مطابق پارلیمنٹ عدالتی اختیارات میں مداخلت کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ باربار ”میں“ کا لفظ کیوں استعمال کر رہے، آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں، کیا آپ کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے، خواجہ صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کون سا عوامی مفاد ہے۔
آپ اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، چیف جسٹس کا خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی، کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے، کیا پارلیمان نئے اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کوقبول ہے کہ ایک بندہ بنچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ سوال نوٹ کرلیں، سپریم کورٹ کا اپنا اختیارہے کہ وہ اپنے اختیارات کواستعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل طارق رحیم سے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورزکوختم کیاگیا یا پھرسپریم کورٹ کی۔
وکیل خواجہ طارق نے جواب دیا کہ آئینی مقدمات میں کم ازکم پانچ ججزکے بنچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس شق پرآپ کواعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔
خواجہ طارق نے سوال اٹھایا کہ کیا تین ججز بیٹھ کر آئینی تشریح نہیں کر سکتے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہیں کہا جا رہا کہ جج قابل نہیں قانون سازی میں تعداد کی بات ہورہی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کے تین رکنی بنچ تشکیل دینے پرکسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا؟ یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ماسٹر آف دی روسٹر والا چیف جسٹس کا اختیارغیر آئینی تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کا سیکشن چار1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیاگیا، کیا اس قانون سازی کیلئے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر 17جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں توٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے، آپ کا پورا کیس یہی ہے نہ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کر رہا، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیاراستعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کرسکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 199 کے اندراپیل کا حق دیا گیا تھا توکیا وہ غلط تھا، ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے کیا وہ ٹھیک تھے، اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں جواب دینے کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں سوال آسان بنا دیتا ہوں، آپ اپنے موکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اچھی چیز غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیدھا سا سوال پوچھا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی۔ جس پر خواجہ طارق نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے سو سوالات میں اصل مدعا تو گم ہوجائے گا۔ آپ چاہیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل خواجہ طارق کو ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہر چیز کا آٸینی جواب دینا ہوگا، ابتک ایک بات بھی نہیں کہی کہ کیس طرح یہ قانون آٸین سے متصادم ہے، ہمارے حقوق پر پارلیمنٹ نے زبردست وار نہیں کیا، آپ ڈیفنڈر کے طور پر رونما ہوگٸے ورنہ یہ جنگ میری ہے، آپ رائے دینے کی بجائے آٸینی بحث کریں، یہ اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، قانون پارلیمنٹ نے بنایا۔
وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہوگئے۔ تو چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلٸے محدود کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ قانون عوامی مفاد کیلٸے بنایا گیا یا ذاتی مفاد کیلٸے، سوالوں کے جواب بعد میں تحریری طور جمع کروا دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیارمحدود کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ سپریم کورٹ کےرولزمیں ترامیم کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے، ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا، میں آپ کی درخواست 10سال نہ لگاؤں توآپ کیا کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کو غیر آئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس آئینی شق سے متصادم ہے، بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو آپ کی بھی نہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں ریکوڈیک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا، ریکوڈک کیس میں ملک کو6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تو نہیں لوں گا، ایسے اختیارات نہیں چاہتا جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو، یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔ از خود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کیلئے تیار ہوں، اندرونی آزادی کے ساتھ ساتھ احتساب اور شفافیت بھی اہم ہے، آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں، خواجہ طارق صاحب آپ جواب تیارکرلیں آپ کو سنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، سپریم کورٹ میں57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہے، پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی ہے تو سمجھ کیوں نہیں رہے، اگر یہ برا قانون ہے تو آٸین کے مطابق بتاٸیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا جاتا ہے I, Me and Myself اس کو یہاں استعمال نہ کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے اعتراض اٹھایا کہ یہ ایکٹ رہتا ہے تو کیس کے خلاف اپیل کون سا بینچ سنے گا، کیا فل کورٹ کے فیصلے کا اطلاق 5 رکنی بینچ پر نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل 184/3کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے، آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئرججز کے ساتھ بانٹ دیا گیا، اختیار باٹنے سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، پارلمینٹ کا یہ اقدام توعدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، چیف جسٹس نے 2 سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہوسکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔ جس پر جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہرسوال کا جواب نہ دیں صرف اپنے دلائل دیں۔
جسٹس منصور شاہ نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خلاف آئین قانون سازی سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتا دیں پھر کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیرالتواء مقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چُکی ہے، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ جب مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا جائے تو پارلیمنٹ کا قانون بھی غلط ہوگا، غلط طریقہ کار سے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں اپیل کا حق دیا جا رہا تو بہت اچھی بات ہے۔
چیف جسٹس نے امتیاز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امتیاز صدیقی صاحب میں ابھی تک آپ کے خوبصورت دلائل نہیں سن پا رہا، سوالات کوٹ کریں اور جوابات دیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ باہر کی دنیا میں بنیچ چیف جسٹس نہیں بناتا، بیلٹ کے ذریعے بنیچز کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے، نیپال جیسے ملک میں بھی کیلنڈر سال شروع ہونے سے پہلے فل کورٹ بیٹھتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر کل پارلیمنٹ کہے کہ فلاں کیس کو 7 ججز نہیں سنیں تو کیا ہوگا، امریکا میں رائٹ آف ابارشن کا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جس کا کام آئین کا دفاع کرنا ہے، ہر بنایا جانے والا قانون قابل عمل نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ امتیاز صاحب لگتا ہے آپ دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں، نظرثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا ہے، ہمیں ڈرائیں نہیں آپ وضاحت دیں، وکیل کا کام ہے کہ بتائے کونسے صفحے پر کیا لکھا ہے، سپریم کورٹ قانون سے بالاتر ہے یہ کہاں لکھا ہے۔
ڈھائی بجے کے قریب سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت میں پہلا وقفہ کردیا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بریک کے بعد اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں شاید انہوں نے باہر جانا ہے اور پاکستان کی نمائندگی کرنی ہے۔
وقفہ ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹروم پر بلا لیا تو اٹارنی جنرل منصورعثمان نے عدالت سے استدعا کی کہ میں آدھا گھنٹہ عدالت میں دلائل دوں گا، میں نے شام کو سندھ طاس معاہدے کے معاملے پر ویانا جانا ہے، تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے دلائل شروع کئے اور کہا کہ ہم یہاں انتظامی اختیارات کی بات کر رہے ہیں، یہ قانون عدلیہ کومزید جمہوری اقدار کا حامل بناتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، یہ قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے اور اس قانون سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ، آٸین پاکستان 1973میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا، صدر کی منظوری سے قوانین بنتے تھے تو کیا صدر کا اختیار تھا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ صدر کا صوابدیدی اختیار تھا یا ایڈواٸس پر منظوری ہوتی تھی،آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر بات شروع کی تھی، اور درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کردی، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ عوامی خدشات کو دور کرتا ہے، آرٹیکل 184/3 کے تحت عوامی مفاد کے کیسز سنے جا سکتے ہیں، درخواست گزاروں کا اعتراض قانون پر نہیں، طریقہ پرہے۔
آپ نے ہمیں قائل کرنا ہے ہم نے آپ کو نہیں، چیف جسٹس کے اٹارنی جنرل کیلئے ریمارکس
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہےکہ کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہائیکورٹ سنے تو کیا مناسب ہوگا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کیس میں 184(3) کی شرائط پوری ہوتی ہیں۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ 184(3) میں حقوق کے نفاذ کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق قانون درخواست گزاروں کی سہولت کیلئے بنایا گیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک فراہمی بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 184/3 میں ہمیں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔
جسٹس یحیٰی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ درخواستگزار انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ انصاف تک رسائی یقیناً سب کا حق ہے، معاملہ فل کورٹ کے سامنے ہے اس لٸے مدعا رکھا ہے۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کررہی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس یہ ہے ہی نہیں کہ قانون بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔
جسٹس اعجاز الا احسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے، بنیادی حقوق کے معاملے پہلے ہاٸیکورٹ نہیں جانا چاہیے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے بھی کہا کہ ہاٸیکورٹس سپریم کورٹ سےمتعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کیلئے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے، سپریم کورٹ سے متعلق بات نہیں کرتا، اس قانون سازی سے متاثرہ فریق کون ہوگا، کس کو اس ایکٹ سے نقصان پہنچ رہا ہے، ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات میں تقسیم ہوئے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے پہلے سوال پر دوبارہ آتی ہوں، یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے، فل کورٹ کے خلاف اپیل کہاں جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال بہت اہم ہے میں بھی یہی سوچ رہا تھا، کیا اس قانون سے جرح یا انصاف کا حق واپس لیا گیا۔
جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ انصاف تک رسائی کو بدلا جا رہا ہے تو کیسے حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی شق ہے جو پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ“لاء“کی تعریف میں آتاہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل10 اے زرا پڑھ لیں تاکہ ہماری یاداشت تازہ ہو جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے میں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بات اس بنیادی اصول کی ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے اپنے الگ الگ خیالات ہیں آپ آگے چلیں، آپ نے ہمیں مطمئن کرنا ہے ہمیں آپ کو نہیں، آئین کو پڑھنا ہو گا ایک دو الفاظ کو لیکر بیٹھ جانا درست نہیں، آرٹیکل 10 اے شہریوں کے لئے ہےسپریم کورٹ کے نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بات اصول کی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں ایک اپیل کا حق آئین دیتا ہے۔ کیا دوسری اپیل کا حق سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کونسی شق پارلیمنٹ کودوسری اپیل کاحق دینے سے روکتی ہے۔ جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کامینڈیٹ ہائیکورٹ میں کیسے چیلنج ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام سوالات نوٹ کر لیے ہیں بعد میں جواب دوں گا، میری نظر میں قانون کا ایک ہی مطلب ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ مطلب ایک ہی ہے تو آئین میں کہیں ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کہیں قانون کا لفظ کیوں استعمال ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دیا گیا فیصلہ بھی قانون ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال نہیں ایک بیان ہے جس سے میں متفق نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ عدالت کا فیصلہ حاوی ہوگا یا پارلیمنٹ کا قانون۔ جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ججز کا بنایا گیا قانون بھی قانون ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ آگے چلیں ہمیں جوچاہے فیصلہ لکھیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ قانون بن سکتاہے، ہر قانون ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا، میرا صرف ایک سوال ہے کہ درخواستگزاروں سے کون سا حق لیا گیا۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ مسٹراٹارنی جنرل یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے فل کورٹ بلانے سے انکار کیا، فل کورٹ نے رولز بنانے سے انکار کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ججمنٹس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا 1980 کے رولز قانون ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1980کے رولز قانون نہیں۔
میں نےآپ کو ہمالیہ جیسی عدالتی غلطی کا بتایا،کیا 6 ارب ڈالر کی مثال دینا کافی نہیں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نےآپ کو ہمالیہ جیسی عدالتی غلطی کا بتایا،کیا 6 ارب ڈالر کی مثال دینا کافی نہیں، سپریم کورٹ کے موجودہ رولز آئین سے متصادم ہیں، سول پٹیشن اورسول اپیل سے متعلق رولز آئین سے متصادم ہیں، اگر چیف جسٹس بینچ نہ بنائے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا، 4 سال سے فل کورٹ میٹنگ نہیں ہو رہی تھی، سپریم کورٹ رولز کو چیلنج بھی کیا جا سکتاہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کےرولزبھی آئین وقانون کےمطابق بنتےہیں، پہلے قانون موجود نہیں تھا اب بن گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراض اٹھایا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم عوام سے کیسز کا فیصلہ کرنے کی تنخواہیں لے رہے ہیں، اور سپریم کورٹ میں روزانہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، میں یہ سارا وزن نہیں اٹھانا چاہتا، وزن اپنے ساتھیوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں، اس بات کا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے پارلیمان کہے 3 ججزنہیں، بیلٹنگ کے ذریعے بینچ ہونا چاہئے، یا پارلیمان کہے3 نہیں سب ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان خلا میں کام نہیں کرتی، اپوزیشن بھی ہوتی ہے، اسٹے کے باوجود میں نے 2 سینئر ججز سے مشاورت کی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں کوئی مفروضوں ہر مبنی سوال نہیں کر رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ بینچ کے بنانے کے بعد مقدمات کون مقرر کرے گا؟۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا اصل کام تو اپیلوں پر فیصلہ کرنا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ زیرالتواء مقدمات نہ ہوتے تو قانون سازی کی ضروت نہ پڑتی۔
آئندہ پارلیمنٹ اگر چیف جسٹس کو اختیار واپس دیدے تو کیا صورتحال ہوگی؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئندہ پارلیمنٹ اگر چیف جسٹس کو اختیار واپس دیدے تو کیا صورتحال ہوگی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مفروضوں پر بات نہیں کریں گے، جب معاملہ سامنے آیا تو دیکھیں گے، لوگوں کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو رہے اس بات کی تکلیف ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اصول کی بات سمجھنے کے لیے سوال کر رہا ہوں، کسی تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمان چاہے تو چیف جسٹس کا اختیار بحال کر سکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میرا سوال اکیلا چیف جسٹس از خود نوٹس کا فیصلہ کرسکتا یے تو کمیٹی کیوں؟ کیا ہم سائل کے سامنے جوابدہ نہیں؟ سائلین کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کمیٹی از خود نوٹس کے اختیار کا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے ؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 184 (3) سپریم کورٹ کو از خودنوٹس کا اختیار دیتی ہے، کیا ججز سپریم کورٹ ہوتے ہیں یا چیف جسٹس۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ 3 رکنی کمیٹی کے سامنے درخواست گزار بھی پیش ہوں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی کسی کی بھی درخواست مسترد کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست پر اعتراضات تو رجسڑار آفس بھی لگا سکتا ہے، یہ کام تین ججز نہیں ایک اسسٹنٹ رجسڑار کرتا ہے، یہاں تو کیس کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے، ادھار واپس لینے کے لیے بھی 184(3) کی درخواستیں آتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کہہ رہے ہیں کہ کام اچھا ہے لیکن پارلیمان نہیں ہمیں کرنا چاہیئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہاں تو اپیل کا حق دیا جا رہا یے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پھر دوسری تیسری اور چوتھی اپیل کیوں نہیں ہو سکتی، پھر ہائیکورٹ سے آنے والوں کو بھی اپیل کا حق دے دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ہم آج تحفظات دکھا رہے ہیں وہ تو پہلے بھی دکھانا چاہیئے تھے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاقی حکومت کو تو فل کورٹ کا کہنا ہی نہیں چاہیئے تھا، کیا پارلیمان نے فیصلہ کرلیا سپریم کورٹ کی فل کورٹ کبھی بیٹھ ہی نہیں سکتی؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فل کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل والے سوال پر کیا جواب دیں گے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میری نظر میں فل کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوگا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر 9 رکنی بنچ 184/3 میں فیصلہ کرے تو اپیل کا حق تب کیسے برقرار رہے گا؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس طرح تو عدالت جب چاہے گی جس کا چاہے گی اپیل کا حق ختم کر دے گی۔
مان لیں ہم نے غلطیاں کیں ہیں، ہمیں ملک کا بھی سوچنا چاہیئے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے پہلے ہی دن 8 رکنی بینچ بھی مقدمہ نہیں سن سکتا تھا، عوامی رائے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسکا غلط استعمال کیا گیا، 184 تھری میں 3 رکنی بینچ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہوگا، عدلیہ کی آزادی کی کیا بات کرتے ہیں، ہاں ہم نے غلطیاں کیں، ریکوڈک ہو ذولفقار بھٹو کیس ہم سے غلطیاں ہوئیں، ہمارا مسئلہ ہے انا بڑی بن گئیں، مان لیں ہم نے غلطیاں کیں ہیں، ہمیں ملک کا بھی سوچنا چاہیئے، درخواست گزار کو ہماری فکر پڑی ہے، ہم نے آئین کے اندررہ کر کام کرنا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ اس دوران جن کیسز کا فیصلہ ہوا ان کا کیا ہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت پہلے سے ختم ہوئے کیسز کو تحفظ دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ بھنڈاری صاحب آپ کس کے وکیل ہیں؟ جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا وکیل ہوں۔
جن کیسز کا فیصلہ ہوا ان کا کیا ہوگا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو سنیں گے، کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کرتے ہیں پھر دیگر وکلاء کو سنیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب بیسٹ آف لک آپ پاکستان کے لیے مقدمہ لڑنے جارہے ہیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ مجھ سے 22 سوالات پوچھے گئے میں لکھ کر جواب دے دیتا ہوں۔
وقفے کے بعد پونے 7 بجے کے قریب سماعت تیسری بار شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہے؟ جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ 2 دن چاہیئے ہوں گے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ بھنڈاری صاحب آپ کتنا وقت لیں گے؟ جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں آدھا گھنٹہ لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ اسے آج ختم کردے لیکن آج ممکن نہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے ویانا جانا ہے اور مزید وقت بھی مانگا، درخواست گزار کے وکلاء نے تحریری جواب کے لیے 2 دن مانگے۔
عدالتی حکم میں پہلے لکھا گیا کہ سپریم کورٹ نے سماعت 2 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔ وکلاء نے عدالت سے استدعا کی کہ ماٸی لارڈ سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کریں، تمام فریقین اپنے تحریری معروضات 25 ستمبر جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے درپیش چیلنج پر اپنے 2 سینئیر ججز سے مشاورت کریں گے، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن نے مانا کہ ہم اپنے طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کریں گے، اگلی سماعت تک تحریری دلائل جمع کرا دیں۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اگر آپ نے آپس میں ہی طریقہ کار طے کرنا ہے تو یہی تو میرا کیس ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بینچز کیسے تشکیل دینے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت ملتوی کرنے کی تاریخ بدل دی اور کہا کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ اب 3 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔
کھلی عدالت میں ہی چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا فیصلہ لکھوایا اور حکم نامہ میں کہا درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو بینچ کے سوالات کے جواب دینا ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈپروسیجر کے ذریعے درپیش چیلنج پر اپنے دو سینیئر ججز سے مشاورت کریں گے۔
جسٹس سردارطارق اورجسٹس اعجازالاحسن نے مانا کہ ہم اپنے طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کریں گے۔
پیر کو سماعت کے موقع پر وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی گئی۔
پی ڈی ایم دور میں منظور کیے گئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ کئی ماہ سے زیر التوا ہے۔
سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بارایوسی ایشن کی درخواست حکم امتناع جاری کیا تھا۔ اس کے بعد سماعت غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
یہ کیس 15 ستمبر بروز جمعہ کو رجسٹرار آفس کی جانب سے سپریم کورٹ میں 18 ستمبر کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور رجسٹرار آفس نے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔
اس مقدمے کی اہمیت یہ ہے کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بحال ہوگیا تو اس کے بعد بنائے گئے بینچز پر سوال اٹھادیے جائیں گے۔ جس میں نیب ترامیم کیس کے لیے بنایا گیا بینچ بھی شامل ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس سماعت کے دوران جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے بار بار فل کورٹ بینچ بنانے کی تجویز بھی دی تاہم سابق چیف جٹس عمر عطا بندیال نے ان دونوں تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے اپنے آخری ورکنگ ڈے یعنی ہفتہ 15 ستمبر کو نیب ترامیم پر فیصلہ دے دیا تھا۔
پی ڈی ایم دور حکومت میں بینچز کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے نام سے ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگرکمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس میں فل کورٹ کی درخواست مسترد، پارلیمانیکمیٹی کا ریکارڈ طلب
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل سماعت کیلئے مقرر، آئندہ ہفتے فلکورٹ کا امکان
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔