عائشہ سات ماہ کی حاملہ ہے اور چار دنوں سے غم میں ڈوبی ہوئی ہے، 29 سالہ اس لڑکی نے اپنے شوہر نورالحسن کے کھو جانے کے غم میں کھانا پینا چھوڑ دیا ہے، جسے مہاراشٹرا کے ضلع ستارا کے گاؤں پسیساولی میں ایک انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم نے مار ڈالا تھا۔
نورالحسن کے والد محمد لیاقت نے ٹیلی فون پر الجزیرہ کو بتایا کہ ’جب میں نے اپنے بیٹے کی بے جان لاش کو بستر پر دیکھا تو میری پوری دنیا بکھر گئی۔ اُس لمحے، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے کیا ہے‘۔
10 ستمبر کی رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے 31 سالہ سول انجینئر نورالحسن قریبی مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے اپنے گھر سے نکلا۔
اس کے چچا محمد سراج نے بتایا کہ مسجد میں تقریباً 15 لوگ موجود تھے اور نماز جاری تھی، جب انہوں نے باہر ہنگامہ آرائی کی آواز سنی۔
ایک ہجوم نے مسجد کو گھیرے میں لے رکھا تھا، وہ مسلم مخالف نعرے لگا رہے تھے اور اسلام کے بارے میں اشتعال انگیز تبصرے کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا، ’تقریباً 150 سے 200 ہندو مرد مسجد کے باہر جمع ہوئے اور پتھراؤ شروع کر دیا، کچھ کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔‘
ایک گواہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ہجوم نے مسجد کا دروازہ توڑا اور اس میں گھس گئے۔
’ان کے پاس تیز دھار ہتھیار، لوہے کی سلاخیں، گرینائٹ کے چھوٹے ٹکڑے اور لاٹھیاں تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو مارنا شروع کر دیا۔ حسن کے سر پر لوہے کی سلاخ سے کئی بار مارا گیا جس سے وہ خون میں لت پت ہو کر گر گیا۔ جب ہم نے اسے موقع سے اٹھایا تو وہ دم توڑ چکا تھا‘۔
اس حملے میں کم از کم 14 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔
اس عینی شاہد نے مزید بتایا کہ کس طرح ہجوم نے ایک قریبی دکان کو آگ لگائی اور مسلم ناموں والی کئی گاڑیوں اور ٹھیلوں کی توڑ پھوڑ کی۔ ’انہوں نے مسجد کی تمام لائٹیں توڑ دیں، قرآن پاک اور دیگر مذہبی کتابوں کو جلا دیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہم سب کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھے‘۔
نورالحسن کے چچا محمد سراج نے بتایا کہ گاؤں کے کسی شخص نے قریبی پولیس چوکی کو آگاہ کیا اور ان کی مداخلت کی وجہ سے ہجوم جائے وقوعہ سے چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جاتے وقت، ہجوم نے گاؤں کی ایک اور مسجد کے باہر کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑے اور مسلم خواتین کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے۔
’پولیس اسے (حسن) کو ایک کلینک لے گئی جہاں اسے مردہ قرار دیا گیا۔ بعد میں اسے مزید تفتیش کے لیے ستارا ڈسٹرکٹ اسپتال منتقل کر دیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ حسن کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اور اسے سر، گردن اور سینے پر شدید چوٹیں آئیں جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
سراج کے مطابق، اس سب کا آغاز ایک ہندو شخص سے ہوا جس نے مبینہ طور پر ایک مسلمان بچے کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کو ہیک کیا اور 17ویں صدی کے ایک قابل احترام ہندو بادشاہ چھترپتی شیواجی کے خلاف ”قابل اعتراض مواد“ پوسٹ کیا جس نے مغلوں سے لڑائی کی تھی۔
یہ پوسٹ وائرل ہوئی اور اس نے علاقے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا۔
تحقیقات کے بعد، پولیس نے تصدیق کی کہ پوسٹ مسلم لڑکے نے نہیں کی تھی اور ملزم کو حراست میں لے لیا، جس کی شناخت امر ارجن شندے کے نام سے ہوئی۔
ستارا کے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو شندے کی گرفتاری کی تصدیق کی اور بتایا کہ ’ایک نابالغ لڑکا انسٹاگرام پر ایک لڑکی سے رابطے میں تھا، جو اس کی ہم جماعت بھی تھی۔ امر جو اس لڑکی کا آن لائن دوست تھا، مسلمان لڑکے کے ساتھ نفرت انگیز دشمنی میں مصروف تھا۔ کمیونٹی میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش میں، امر نے مسلم لڑکے کا اکاؤنٹ ہیک کر لیا اور شیواجی مہاراج کے بارے میں توہین آمیز تبصرے پوسٹ کیے‘۔
پولیس افسر نے کہا کہ شیواجی پر ایک اور قابل اعتراض سوشل میڈیا پوسٹ 10 ستمبر کو علاقے میں وائرل ہوئی تھی۔ ’ہمیں اس پوسٹ کے بارے میں فوری طور پر علم ہوا اور تحقیقات کا آغاز کیا۔ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے تھے اور اس معاملے میں دو آدمیوں کو طلب ہی کیا تھا کہ اس شام کو ہجوم نے مسجد پر حملہ کیا، جس کی وجہ سے ایک نوجوان کی موت ہو گئی‘۔
افسر نے بتایا کہ حالات پر قابو پانے کی کوششوں میں کم از کم 10 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ ’انٹرنیٹ سروسز کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی تعیناتی کی گئی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں تین الگ الگ فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کی گئی ہیں۔
مذکورہ افسر نے بتایا، ’اب تک، ہم نے 35 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور تفتیش ابھی جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ حسن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے نتائج کو اس وقت تک ظاہر نہیں کر سکتے جب تک تحقیقات جاری نہ ہوں۔
اس دوران حسن کا خاندان صدمے کی حالت میں ہے۔ حسن کے نرم مزاج والد ایک مقامی مدرسے میں استاد ہیں اور ان کی والدہ ایک سرکاری اسپتال سے ریٹائرڈ نرس ہیں۔
حسن نے گزشتہ سال نومبر میں عائشہ سے شادی کی تھی۔
چند ماہ قبل سول انجینئر کے طور پر نوکری پانے والے حسن نے تعمیراتی کام کے لیے کرائے پر دینے اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے بلڈوزر خریدا تھا۔
حسن کے چچا سراج کے مطابق، گاؤں پر حملے کی منصوبہ بندی ہندو گروپوں نے کی تھی جو مبینہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے موقع کا انتظار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ پچھلے 10 15 دنوں سے ہم پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہم شیواجی مہاراج کا بے حد احترام کرتے ہیں، اور ہمارے پاس ان کے بارے میں کوئی توہین آمیز پوسٹ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘۔