Aaj Logo

شائع 16 ستمبر 2023 03:17pm

بھارتی کرنل، میجر کو مارنے والے عسکریت پسند چوتھے روز بھی نہ پکڑے گئے، ڈرونز بھی ناکام

مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں عسکریت پسندوں کیخلاف سرچ آپریشن پولیس اورفوج کے اعلیٰ حکام کی نگرانی میں چوتھے بھی جاری ہے۔

یہ آپریشن گذشتہ بدھ کو ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پرسری نگر سے 100 کلو میٹر دور اننت ناگ کے علاقے گڑول میں شروع کیا گیا تھا جس کے دوران دوسری جانب سے کی جانے والی فائرنگ سے بھارتی فوج کے ایک کرنل، ایک میجر اور ایک سپاہی کے علاوہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے ایک ڈی ایس پی مارے گئے۔

آل انڈیا ریڈیو کے مطابق بھارتی فوج ضلع اننت ناگ ضلع کے علاقے کوکرناگ میں گڑول کے گھنےجنگلات کے پہاڑوں میں قدرتی غاروں میں چھپےعسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کیلئے ڈرون کا استعمال کررہی ہے۔

اے این آئی کی شیئرکردہ ویڈیو مییں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی گاڑیاں قطار درقطارآپریشن میں مصروف ہیں۔

جموں و کشمیر پولیس نےایکس پوسٹ میں واضح کیا ہے کہ، ’یہ مکمل طورپراِن پُٹ پرمبنی آپریشن ہے، جو جاری ہے اور تمام دہشتگرد ختم کردیے جائيں گے‘ۯ

گھنے جنگلات کے نچلے حصوں میں بستیاں آباد ہیں۔ اننت ناگ اور کوکرناگ کا درمیانی فیصلہ 30 کلومیٹر ہے ، یہ مقابلہ جنگلوں کے درمیان ہوا جہاں پہنچنے کیلئے اوپرچڑھنا پڑتا ہے۔

بھارتی سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کو قابو کرنے کی بھرپورکوششیں کررہی ہے، پورا علاقہ گھیرے میں لیتے ہوئے کئی مقامات پرفلڈ لائٹس بھی لگائی گئی ہیں۔

جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈی جی شیشپال وید کے مطابق، ’جس جگہ آپریشن جاری ہے وہ بہت مشکل ہے۔ یہاں جنگلات، اونچی پہاڑیاں اورچڑھائیاں ہیں اور پہلے سے موجود سیکیورٹی فورسز کی جگہ دوسروں کو لینا پڑتی ہےکیونکہ ایک سپاہی 24 گھنٹے کام نہیں کرسکتا۔وہاں کھانا پہنچانا پڑتا ہے، اسلحہ لانا پڑتا ہے اور دیگرضروری چیزیں بھی پہنچانی پڑتی ہیں۔ ایسےمیں تلاش میں بھی وقت لگتا ہے‘۔

انہوں نے برطانوی نشریاتی اداررے کو بتایا کہ ممکن ہے حکام کو خود اس جگہ کا علم نہ ہو جہاں یہ عسکریت پسند چھپے تھے۔ نتیجتاً وہ انکے جال میں پھنس گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مارے جانے والے افسران علاقے کو گھیرے میں لینے کے بعد سیدھے ادھرچلے گئے ہوں اور انہیں عسکریت پسندوں کی پوزیشن کا علم نہیں ہو۔’

ایک سینیئر فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب بھی کوئی آپریشن شروع کیا جاتا ہے ، کچھ نہ کچھ ہونے کا خدشتہ لگا رہتا ہے۔

سابق ڈی جی پولیس شیشپال کا یہ بھی کہنا ہے کہ یسا لگتا ہے کہ آپریشن جس کے ان پٹ پر کیا گیا تھا، کبھی کبھار وہ ڈبل ایجنٹ ہوتا ہے۔ مخبر دوسری طرف (شدت پسند) سے بھی ملے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ جس نے معلومات دی، کاسکا تعلق شدت پسندوں سے تو نہیں تھا؟ آپریشن کے بعد اس پرغور کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر سے دہشتگردی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب عسکریت پسندوں نے شہروں کے بجائے جنگلوں میں رہنا شروع کردیا تاکہ وہ سیکیورٹی فورسز کو زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں کو یہ اطلاع کیسے ملی کہ سکیورٹی فورسز آرہی ہیں؟۔

اس سرچ آپریشن کے دوسرے جوں وکشمیر پولیس نے ایکس پوسٹ میں لکھا تھا کہ، ’ کرنل منپریت سنگھ، میجرآشیش دھونچک اور ڈی ایس پی ہمایوں بھٹ کی غیر متزلزل بہادری کو حقیقی خراج عقیدت، جنھوں نے فرنٹ قیادت کرتے ہوئے جانیں قربان کیں۔ ہماری افواج عزم کے ساتھ عزیرخان سمیت دو دہشتگردوں کو گھیرنے میں مصروف ہیں’۔

عذیرخان کوکرناگ علاقے کا مقامی رہائشی ہےجس نے 2022 میں عسکریت پسند گروہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

13جون 2023 سے اب تک کشمیر میں کل 8 ان کاؤنٹرزہو چکے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان مقابلوں میں 15 عسکریت پسند مارے گئے ہیں جن میں کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے۔

کشمیر کے ضلع کپواڑہ، پلوامہ، کولگام اور اننت ناگ میں ہونے والے ان 8 مقابلوں میں فوج اور پولیس کے 6 افسرا مارے گئے۔

Read Comments