اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا جس کے مطابق شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کا اعلان جمعرات کو اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اہم اجلاس کے اختتام پر کیا گیا۔
گورنراسٹیٹ بینک کی سربراہی میں مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
مرکزی بینک کے مطابق بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے قبل کئی بروکریج ہاؤسز نے پیش گوئی کی تھی کہ مرکزی بینک شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس تک اضافہ کر سکتا ہے، اور شرح سود 24 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ پیش گوئی ملک میں افراط زر اور عالمی قیمتوں کے رجحانات پر مبنی تھی۔
تاہم، مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کی شرح گزشتہ چند مہینوں میں عروج پر پہنچنے کے بعد کم ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: شرح سود: آپ کی زندگی کیسے متاثر ہوگی
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مہنگائی کے تازہ ترین اعدادوشمار کے پیش نظر کیا ہے۔ مئی میں مہنگائی اڑتیس فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی، جو اگست میں کم ہو کر ستائیس اعشاریہ چار فیصد پر آگئی، مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ستمبر کے دوران مہنگائی میں نمایاں اضافے کا امکان ہے، تاہم اکتوبر میں مہنگائی میں کمی آئے گی اور اس کے بعد سے اس میں کمی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔
مرکزی بینک نے زرعی پیداوار میں بہتری، ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کریک ڈاؤن نے ’انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔‘
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور اقدامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ اسے توقع ہے درآمدات سال کے بقیہ حصے میں برقرار رہیں گی، جس سے تجارتی خسارہ کم ہو جائے گا جو گزشتہ چار مہینوں میں سرپلس پوسٹ کرنے کے بعد جولائی میں 809 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق خام مال اور فصلوں میں بہتری کی نشاندہی پر زرعی شعبے میں بہتری آئی، عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور یہ نوے ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئی ہیں، جاری کھاتے کا خسارہ چار ماہ فاضل رہنے کے بعد جولائی میں خسارے سے دوچار ہوا۔
پیٹرولیم مصنوعات، کھاد اور سیمنٹ جیسے اہم خام مال کی فروخت میں اضافے کے ساتھ درآمدی حجم میں معمولی اضافہ ہوا۔
رواں مالی سال دو ماہ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں ستائیس اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا، سیلاب سے متعلق پچھلے خدشات زائل ہوگئے ہیں، کپاس کی آمد گذشتہ برس کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیان میں یہ بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ حکومت نے مالیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کرنسی نوٹ چھاپنے کی رفتار کو کم کر دیا ہے۔
یکم ستمبر کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ براڈ منی (M2) کی نمو بنیادی طور پر نجی شعبے کو قرضے میں نمایاں سست روی کی وجہ سے سالانہ بنیاد پر جون 2023 کے مقابلے 14.2 فیصد سے گھٹ کر 13.6 فیصد رہ گئی ہے۔ ایم 2 کی طرح مالی سال 24 میں اب تک ریزرو منی میں اضافہ بھی کم ہوا ہے۔ یہ رجحان بنیادی طور پر گردش میں موجد کرنسی میں نمایاں کمی کی عکاسی کرتا ہے۔
مرکزی بینک نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بہتر مالیاتی انتظام کے باعث نجی شعبہ سال کے آخر میں قرضوں کی دوبارہ فراہمی کی توقع کر سکتا ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر تیل کی عالمی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو افراط زر کی شرح بہت کم ہو سکتی تھی۔
اسٹیٹ بینک کی کمیٹی نے کہا کہ فاریکس مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال بھی مہنگائی کو کم کرنے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔
ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کا حوالہ دیتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ اس اقدام سے مہنگائی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
’اس تناظر میں، مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ حالیہ ریگولیٹری اور قانون نافذ کرنے والے اقدامات اجناس کی سپلائی کی رکاوٹوں اور (فاریکس) مارکیٹوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کو دور کرنے میں مدد کریں گے۔ یہ پیش رفت بہتر زرعی نقطہ نظر اور سخت مالیاتی پالیسی کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کرے گی کہ افراط زر کی شرح خاص طور پر اس سال کی دوسری ششماہی سے کم رہے۔‘