صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بدھ کو چیف الیکشن کمیشنر کو لکھے گئے خط میں تجویز پیش کی ہے کہ ملک میں انتخابات 6 نومبر کو کرائے جائیں۔ یہ بظاہر ایک متوازن عمل نظر آتا ہے تاہم، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار شاید ان کے پاس نہیں تھا اور تجویز پیش کی کہ اسٹیک ہولڈرز سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کریں۔
پی ٹی آئی صدر علوی سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) اور نگراں حکومت اس بات پر مصر ہے کہ صدر کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
نجی ٹی وی چینلز کے تجزیہ کاروں نے حال ہی میں کہا ہے کہ صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا کوئی بھی فیصلہ غیر یقینی صورتحال کو جنم دے گا اور معیشت کو نقصان پہنچے گا۔
صدر مملکت عارف علوی نے بدھ کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط ارسال کیا جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات 6 نومبر کو کرائے جائیں۔
عارف علوی نے خط میں کہا کہ ’آئین کا آرٹیکل 48(5) صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کی تاریخ سے نوے دن کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک تاریخ مقرر کریں‘۔
صدر نے مزید لکھا کہ ’آرٹیکل 48 کے تحت (5) قومی اسمبلی کے عام انتخابات اسمبلی تحلیل ہونے کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہئیں۔‘
اس کے بعد صدر نے نوٹ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبائی حکومتوں کا نقطہ نظر مختلف ہے اور ان کا خیال ہے کہ صدر کے پاس انتخابی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاق کو مضبوط کرنے، صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دینے اور غیر ضروری اخراجات سے بچنے کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی تاریخ کو کرانے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
صدر علوی نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرے۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات کی ایک ہی تاریخ کے اعلان کے لیے آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
خط میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے۔
23 اگست کو صدر علوی نے عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ طے کرنے کے لیے سکندر سلطان راجہ کو ملاقات کے لیے مدعو کیا تھا تاہم چیف الیکشن کمشنر نے یہ دعوت ٹھکرا دی تھی۔
صدر علوی نے اپنے خط میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے میٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے ’اس کے برعکس موقف اختیار کیا کہ آئین کی رو اور انتخابی قوانین کے فریم ورک کے مطابق یہ اُن کا دائرہ کار ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ 7 اگست 2023 کو مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل جاری ہے، جو کہ آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشنز ایکٹ، 2017 کے سیکشن 17 کے ذریعے ایک لازمی شرط تھی۔‘
صدر مملکت نے یہ بھی یاد دلایا کہ وفاقی وزارت قانون و انصاف بھی ’پاکستان کے الیکشن کمیشن جیسا نقطہ نظر رکھتی ہے۔‘
صدر نے کہا کہ چاروں صوبائی حکومتوں کا موقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینڈیٹ ہے۔
اس بات پر زور دیئے بغیر کہ انہیں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا حق حاصل ہے، صدر نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد آرٹیکل 51,218,218,220 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔
گزشتہ دو دن سے قیاس آرئیاں جاری تھیں کہ صدر جلد ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں، اس کیلئے انہوں نے کچھ ملاقاتیں اور مشاورتیں بھی کی تھیں جن میں انہیں تجویز دی گئی تھی کہ وہ تاریخ کا اعلان نہ کریں۔
خیال رہے کہ صدر کو آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت انتخابات کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم پچھلی حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے اکیلے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار دے دیا۔
صدر علوی نے حال ہی میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو انتخابات پر مشاورت کے لیے مدعو کیا تھا۔
تاہم، چیف الیکشمن کمشنر نے شائستگی سے جواب دیا کہ چونکہ اسمبلیاں ان کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحلیل ہو چکی تھیں، اس لیے تاریخ کا اعلان کرنے کا حق صرف کمیشن کے پاس ہے۔
قبل ازیں، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات پر تعطل کے دوران صدر علوی نے 14 مئی کو انتخابات کی تاریخ مقرر کی تھی۔
تاہم حکومت نے الیکشن کمیشن کے لیے فنڈز کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے اس فیصلے پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا۔