وفاقی کابینہ نے مبینہ طور پر اسٹیئرنگ کمیٹی کی منظوری تک اسلام آباد، کراچی اور لاہور ائر پورٹ کی آؤٹ سورسنگ کو روک دیا۔
گزشتہ ماہ ایوی ایشن ڈویژن نے وفاقی کابینہ کو اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی تھی۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق ائر پورٹس کے آپریشنز میں نجی شعبے کی شرکت خدمات کے معیار کو بہتر بنانے، ہوائی اڈوں کی آمدنی کے امکانات کو کھولنے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے ایک قائم اور کامیاب بین الاقوامی عمل ہے۔
کابینہ کو مزید بتایا گیا کہ دنیا بھر میں نجی طور پر چلائے جانے والے ائر پورٹس عالمی فضائی ٹریفک کا 40 فیصد ہیں، سب سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے ائر پورٹس میں سے 40 پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر مبنی تھے۔
جب کہ بھارت کے بڑے ہوائی اڈوں بشمول دہلی، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروجیکٹ کے طور پر لیز پر دیا گیا تھا۔
اجلاس میں کابینہ کو بتایا گیا کہ کئی آپشنز پر غور کیا گیا اور چند سالوں سے کوششیں کی گئیں لیکن اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔
دسمبر 2022 میں نئی کوششیں شروع کی گئیں اور کافی غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کوشش کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ 2017 کے فریم ورک کے اندر ایک بین الاقوامی مسابقتی عمل کے ذریعے آگے بڑھایا جائے۔
اس کا مقصد ائر پورٹ کے ڈیزائن، تعمیر، بحالی، مالی اعانت، چلانے، دیکھ بھال کے لئے ایک نجی پارٹنر حاصل کرنا اور رعایت ختم ہونے کے بعد اسے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کو واپس منتقل کرنا تھا۔
یہ پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں پہلا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبہ ہوگا۔ اسلام آباد کے بعد اس ماڈل کو کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈوں کے لیے بھی اپنائے جانے کا امکان ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ ورلڈ بینک گروپ کے رکن انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ 2017 کے تحت 11 اپریل 2023 کو ٹرانزیکشن ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا۔
آئی ایف سی کو پبلک پراویٹ پارٹنرشپ کے منصوبوں کو مشورہ دینے اور ان کی حمایت کرنے کا بھرپور تجربہ حاصل ہے، جب کہ یہ 1989 سے اب تک 120 ممالک میں 360 منصوبے شروع کر چکا ہے جس میں 2005 سے اب تک 40 ہوائی اڈوں سے متعلق منصوبے شامل ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ آئی ایف سی نے ہوائی اڈوں کے منصوبے پر مقامی اور بین الاقوامی ماہرین کی ایک بڑی ٹیم مقرر کی ہے اور وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں ایوی ایشن اتھارٹی کی ٹیم کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ آئی ایف سی کی ٹیم نے تینوں ہوائی اڈوں کا دورہ کیا، اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کی اور سی اے اے ٹیم کی مدد سے ضروری مطالعہ کیا۔
کابینہ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ جہاں تک ریگولیٹری فریم ورک کا تعلق ہے تو گورننگ لاء پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ایکٹ 2017 ہے اور اس پر عمل درآمد کرنے والا سی اے اے ہے۔
ریگولیشن اور نگرانی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی (پی تھری اے) اور وزارت خزانہ کے رسک مینجمنٹ یونٹ کو تفویض کی گئی تھی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ایکٹ کے مطابق ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری پی آئی اے بورڈ نے دی تھی جس کی سربراہی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کر رہے تھے۔
اجلاس میں واضح کیا گیا کہ ائر پورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور کسٹمز (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) حکومت پاکستان کی نگرانی میں کام کرتے رہیں گے اور اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد ائر پورٹ کی نمایاں خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ہوائی اڈہ پی آئی اے کے مرکز کے طور پر ابھرا ہے اور کراچی کے بعد پہلے ہی پاکستان کا دوسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔ یہ نسبتا نیا تھا اور 2018 میں تعمیر کیا گیا تھا جس میں وراثت کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، اسی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آؤٹ سورسنگ اسلام آباد ائر پورٹ سے شروع کی جائے گی۔
چیئرمین نے کہا کہ ایوی ایشن ڈویژن کا اقدام تسلی بخش دکھائی دیتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ ادارے جان بوجھ کر اس موضوع پر منفی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
ایوی ایشن ڈویژن نے مزید کہا کہ اس سے قبل منصوبے کی آؤٹ سورسنگ کی نگرانی اور رہنمائی کے لئے وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
حکام نے کہا کہ کمپنی نے ائر پورٹ کی رعایتی مدت 15 سال رکھنے کا مطالبہ کیا ہے اور رعایتی فیس میں 100 ملین ڈالر کی پیشگی ادائیگی شامل ہوگی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جہاں تک رعایتی مدت کے دوران سی اے اے کی آمدن کے تخمینے کا تعلق ہے، ائر پورٹس کی کل آمدنی کا 48 فیصد پبلک پرائیوٹ پراجکٹ منصوبے کے دائرہ کار سے باہر ہے اور براہ راست (نیویگیشن، ٹیکسی وے، سامان) سی اے اے کو حاصل ہوتا رہے گا جب کہ منظور شدہ ٹرانزیکشن ڈھانچہ پیشگی اور متغیر فیسوں کے امتزاج پر مبنی ہے۔
100 ملین ڈالر کی پیشگی فیس کے ساتھ ، منصوبے کے دائرہ کار میں آنے والی نصف سے زیادہ آمدنی سی اے اے کو منتقل کردی جائے گی۔15 سال کے عرصے میں ایوی ایشن اتھارٹی کو حاصل ہونے والی متغیر فیس کا تخمینہ برائے نام 1360 ملین ڈالر اور این پی وی کے لحاظ سے 598 ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اصل قیمت بولیوں پر منحصر ہوگی اور منصوبے کی رقم کی خالص قیمت کا تخمینہ 214 ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔
یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ ستمبر میں ایک پری بڈ کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ آگے بڑھنے کی گنجائش کی تصدیق، ممکنہ بولی دہندگان سے تجاویز طلب کرنے اور اگر ضرورت ہو تو رعایتی دستاویزات میں ایڈجسٹمنٹ کی جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق مخصوص افعال انجام دینے والے اداروں کے ساتھ سروس کی سطح کے معاہدوں کی تیاری اور معاوضے کی ادائیگی پر سول ایوی ایشن اتھارٹی اور حکومت کے درمیان کام کرنے کی ضرورت ہے جسے اسٹیئرنگ کمیٹی کی رہنمائی میں ستمبر کے آخر تک مکمل کیا جاسکتا ہے۔
بولیوں کی وصولی کے بعد ان کی تشخیص کے لئے تقریباً 45 دن درکار ہوں گے جب کہ منصوبے کی تجارتی اور مالی بندش 2024 کے درمیان تک حاصل کی جاسکتی ہے۔
وزیر خزانہ نے تجویز پیش کی کہ اس مقصد کے لئے تشکیل دی گئی اسٹیئرنگ کمیٹی میں سب سے پہلے تکنیکی تفصیلات پر غور کیا جانا چاہئے۔ اس کے بعد ضرورت پڑنے پر فیصلے کابینہ کو پیش کیے جائیں گے۔