ماہرین کی جانب سے پیشگوئی کی گئی ہے کہ مراکش کے بعد اسرائیل تباہ کن زلزلے کا شکار ہو سکتا ہے۔
اسرائیل حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار متان یاہو انگلمین نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ جمعہ کو مراکش کو ایک مہلک زلزلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی ریاست ان سخت یاد دہانیوں کے باوجود زلزلے کی تیاریوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی تباہی کے بعد تحقیقاتی کمیٹی کا انتظار کرنے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ وزیراعظم اور متعلقہ وزارتیں فوری طور پر خامیوں کو دور کریں۔
اسرائیل افریقی اور عرب ٹیکٹونک پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہے اور اس وجہ سے اسے ایک بڑے اور مہلک زلزلے کے خطرے کا سامنا ہے۔
افریقی پلیٹ شمال جنوبی محور کے ساتھ منقسم ہے جسے ”بحیرہ مردار“ یا شامی افریقی رفٹ کہا جاتا ہے۔
یہ رفٹ جنوبی ترکیہ سے شام، لبنان، وادی اردن، وادی عربہ، بحیرہ احمر، اور جنوب کی طرف افریقہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ خلیج عقبہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ ان رفٹ زونز کے قریب ترین علاقے بڑے زلزلوں کے لیے حساس ہیں۔
اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایک سینئر محقق اور ماہر ارضیات ڈاکٹر ایریل ہیمن کے مطابق، اسرائیل میں شامی افریقی رفٹ کے ساتھ آنے والے زلزلوں کا پتہ آٹھویں صدی تک لگایا جا سکتا ہے اور یہ ہر 80 سال بعد آتے ہیں۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کی پارلیمنٹ میں کام کرنے والا چینی جاسوس گرفتار
ان کے مطابق، چھ یا اس سے زیادہ شدت کا آخری بڑا زلزلہ 1995 میں ایلات کے علاقے میں آیا تھا۔
ہیمن نے کہا کہ بہت سے چھوٹے زلزلے جو بمشکل محسوس کیے جاتے ہیں اس خطے میں باقاعدگی سے آتے ہیں اور بغیر کسی واقعے کے گزر جاتے ہیں۔ اس کے باوجود، اگلے 50 سالوں کے اندر جنوبی لبنان اور بحیرہ مردار کے جنوبی حصے کے درمیان ایک اور طاقتور زلزلے کے زیادہ امکان کو سمجھنا مناسب رہے گا۔
ڈاکٹر ایریل ہیمن کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل میں بڑیم شدت کا زلزلہ ”اگر“ نہیں بلکہ ”کب“ کا سوال ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ مراکش میں تباہی اسرائیل کے لیے ایک اور انتباہی علامت ہے۔ ایسا زلزلہ یا شاید اس سے بھی زیادہ طاقتور زیادہ دور نہیں۔
ہیمن نے کہا کہ اگلا زلزلہ 10 منٹ یا 10، 20، 50 سال دور ہو سکتا ہے، تمام نئی ٹیکنالوجی کے باوجود، زلزلے کی پیش گوئی کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
ہیمن نے دی یروشلم پوسٹ کو بتایا، ’ زیر زمین کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ہو رہی ہیں، لیکن بہت آہستہ اور امید ہے کہ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔’