نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔ آخری مرتبہ اس حوالے سے جو قانون سازی کی گئی وہ یہی تھی کہ اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ پر وکلاء تحریک اور اس سے سول ان ریسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا یہ معاملہ سول انتشار کی طرف جائے گا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بڑی ہلچل ہوگی۔
صدر مملکت کے آپ کے کیسے تعلقات ہیں اور کیا الیکشن کی تاریخ پر کوئی ملاقات ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلقات ’مناسب ہیں‘۔ لیکن الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میرا فوکس معیشت، دہشتگردی اور خارجہ پالیسیز پر ہے۔
پاکستان میں الیکشن کب تک ہوجائیں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ غیر ضروری طور پر انتخابات کو کھینچا نہیں جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل ہونے کا انتظار ہے، اہم بات یہ ہے کہ ’حلقہ بندیاں ٹھیک ہوں ان میں کسی ایک سیاسی جماعت کا رنگ نظر نہ آئے‘، ان میں مینوورنگ قدرے کم ہو۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ’پریشر نہیں رکھنا چاہیے، انہیں اپنا کام درست رکھنا چاہئے‘۔ وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے جسے اپنے پلان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئین پاکستان کی میں پوزیشن ہے وہی پوزیشن میری ہے۔
بلاول کے بیان ’کئیر ٹیکر حکومت چئیر ٹیکر نہ بنے‘ کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگر انہیں کوئی نئے خدشات پیدا ہوئے ہیں تو اس کا علم نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مختلف پوزیشنز لیتے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ درست ہوتی ہیں ، کچھ نہیں ہوتیں۔
آصف علی زرداری میثاقِ معیشت کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت خوبصورت تجویز ہے‘، تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ میثاق معیشت میری اپنی ذاتی خواہش بھی ہے اور میں ووٹ اس جماعت کو دوں گا جو معاشی بحالی کا پلان لے کر آئے گی۔
پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کو کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جرم تھے، ریاست بدلہ نہیں لے گی بلکہ انصاف کرے گی۔
علی وزیر کی گرفتاری اور ان کے مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’سیاسی بات چیت میں پرامن شرکت، چاہے وہ علی وزیر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں، یہ ان کا بنیادی حق ہے، جمع ہونے کا حق، اظہار کا حق‘۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اگر ان کے ان حقوق کا مذاق بناتا ہے چاہے ریاست ہی کیوں نہ ہو تو یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔ لیکن ان حقوق کو بنیاد بنا کر اگر آپ تفرقہ یا افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
کیا ریاست کو بغاوت کے الزامات عائد کرنے چاہئیۓ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’ریاست نے اگر قانون بنا دیا ہے تو یہ ریاست کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس کو نافذ کرے‘۔
اگر سپریم کورٹ نیب ترامیم کو اسٹرائیک ڈاؤں کر دیتی ہے تو کیا نگراں حکومت ریویو پر جائے گی؟ اس حوالے سے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ظاہر سے اس پر وزارت قانون کی جانب سے سوچ بچار کیا جائے گا اور جو وزارت قانون کی تجویز ہوگی کابینہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گی، لیکن اگر ایسا ہوا تو امکانا ہیں کہ ریویو (نظر ثانی کی اپیل) میں جایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت وہ پاورز استعمال کر رہی ہے جو جاتی ہوئی پارلیمنٹ اس کو دے گئی ہے، اچھا قانون تھا یا برا تھا پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا، قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی اختیار ہے اور موجودہ حکومت کو اس کا دفاع کرنا چاہیے۔
آئی ایس آئی چیف اس مہینے ریٹائر ہو رہے ہیں، کیا آپ انہیں ایکسٹینشن دیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معلومات کا عوامی حلقوں میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے، اس کے جو بھی مفہوم ہیں وہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہیں، آئی ایس آئی چیف کی ایکسٹینشن قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ایکسٹینشن پر تمام متعلقہ لوگوں کی رائے جان کر فیصلہ کروں گا۔
ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان حکومت کے ارادوں اور ان کی صلاحیت کو دیکھ رہے ہیں، افغانستان ریاست کا تصور نہیں ہے جو دہشتگردوں کی دی گئی انفارمیشن کو بارڈر فورسز تک پہنچائے۔
پاکستان کی افغانستان کی حدود کے اندر کارروائی کرنے کے بیانات کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کا دفاع کرے اور ہم ہر قیمت پر یہ کریں گے‘۔
افغانستان کے اندر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس حوالے سے ابھی کچھ زیر غور نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ لوگوں پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا جارہا، پھر غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں جن کے پاس یہاں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، جن کے خلاف ہم کریک ڈاؤن پلان کر رہے ہیں، غیرقانونی مہاجرین کو پاکستان کی سرزمین چھوڑنی ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمتوں میں آرمی چیف کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کردار کے ساتھ حکومتی سپورٹ بھی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دفاعی اداروں کا 8 سے 10 ارب ڈالرز بجٹ ہے، ہمارے بجٹ کا 17 فیصد دفاع میں جاتا ہے اور اس 17 فیصد میں ملٹری، ائرفورس اور نیوی بھی شامل ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔
سعودی ولی عہد کہ ممکنہ پاکستان آمد پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش اور امید یہ ہے کہ محمد بن سلمان لمبے دورانیے کے لئے پاکستان آئیں گے، وہ مخصوص چند ساعت کیلئے نہیں آئیں گے۔ وہ ایسے وقت کیلئے آئیں گے جو دونوں اطراف کیلئے آسان بھی ہو اور قابل قبول بھی ہو۔ کوشش یہ ہے کہ ہماری طرف سے پروجیکٹس پر کام مکمل ہو اور جب وہ تشریف لائیں تو ہم اس کا فائدہ اٹھا کر ان کے دستخط لے لیں۔
احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے تسلسل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میں خود اپنے آپ کو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تصور کرتا ہوں، لیکن کسی بھی اقلیت خصوصاً احمدی جس کا آپ نے تذکرہ کیا، میں اس کو شریعت محمدی ﷺ کے تحت ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا، وہ پاکستان کے قوانین کے حوالے سے بھی، پاکستان میں بحیثیت فعال مسلمان یہ ہمارا فرض ہے‘۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہ اس کا جواب ہے نہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔