موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس سوال نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو الجھا رکھا ہے، ان میں سے کچھ موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں تو کچھ کا ماننا ہے کہ موت کے بعد انسان کا کچھ نہیں ہوتا۔
ویسے تو اللہ سبحانہُ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں اور نبی کریم ﷺ نے تفصیل سے بتایا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے، لیکن غیرمسلموں کے عقائد چونکہ الگ ہیں اس لیے ان کے نظریات بھی مختلف ہیں۔
لیکن ایک ملحد (کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والا) ایسا بھی ہے جو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوا اور پھر خدا پر ایمان لے آیا۔
ہوزے ہرنینڈز ایک ملحد تھے جو بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک زندگی بدلنے والے واقعے نے ان کے نقطہ نظر کو بدل دیا۔
یوٹیوب چینل شمن اوکس سے بات کرتے ہوئے ہرنینڈز نے اپنے زندگی کے غیر معمولی سفر کا تذکرہ کیا جو ایک انجینئر کے طور پر معمول کے کام کی تفویض سے شروع ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں ایک کٹر ملحد تھا۔ بطور انجینئر میں نے ہمیشہ صرف منطقی وضاحتوں پر توجہ مرکوز کی، لیکن اس دن سب کچھ بدل گیا۔ میں ٹرک پر چڑھ کر بجلی کی تاریں ٹھیک کر رہا تھا، ہم لیٹ ہو رہے تھے، اسی چکر میں میرے ساتھی نے نادانستہ طور پر ہمارا ٹرک درخت سے ٹکرا دیا۔ جس سے میری کئی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور مجھے اسپتال لے جایا گیا‘۔
اسپتال میں ہرنینڈز کی سانسیں بند ہو گئیں اور طبی عملے نے اس کی جان بچانے کے لیے بے حد جدوجہد کی۔
ہرنینڈز کے مطابق اُس نازک لمحے میں اُنہوں نے خدا سے وعدہ کیا کہ اگر وہ انہیں اس مشکل سے نکال دے تو وہ بد جائیں گے۔
تب ہی انہیں کمرے میں ایک پراسرار موجودگی کا احساس ہوا۔
ہرنینڈز کہتے ہیں، ’میں نے دروازے کے پاس ایک سائے کو کھڑا دیکھا۔ اس وقت، میں نے سوچا کہ میں نے زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا ہے، شاید اب جانے کا وقت آگیا ہے، جس لمحے اس سائے نے میرے پیر کو چھوا، راحت، سکون، امن اور محبت کے ایک زبردست احساس نے مجھے گھیر لیا‘۔
ہرنینڈز نے دعویٰ کیا کہ جس وقت طبی عملہ انہیں بچانے کی کوشش کر رہا تھا اس وقت اس سائے نے ان سے بات کی۔
ہرنینڈز نے کہا کہ ’اس کے بعد، میں نے اپنے آپ کو کمرے کے کونے میں معلق پایا، اور خود کو بچناے کی کوششوں کو دیکھنے لگا، پھر ایک آواز آئی کہ اپنے جسم کو ایک کار سمجھو۔ اس گاڑی نے 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا ہے اور ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ جسم کو الوداع کہنے کا وقت ہے۔‘
اس کے بعد، ہرنینڈز بتایا کہ وہ ایک اندھیرے سوراخ میں دھکیل دیے گئے جہاں انہوں نے پرواز کا تجربہ کیا اور دلفریب شہروں، دلکش جنگلات، اور جانوروں کے ریوڑوں کو دیکھا۔ اس آسمانی دائرے میں انہیں یقین دلایا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو دوبارہ دیکھ سکیں گے اور سب سے اہم بات کہ وہ اپنے والد سے ملے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں دوسری طرف اپنے والد سے ملا تو میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات ہم یہاں (دنیا میں) کچھ چیزوں کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، لیکن کہیں اور ہم کر سکتے ہیں۔‘
لیکن اس کے بعد وہ اچانک واپس دنیا میں کھینچ لیے گئے۔
قریب المرگ اس طرح کے تجربات کے حوالے سے بائیو کیمسٹری کے ایمریٹس پروفیسر ولیم ریویل نے آئرش ٹائمز کے ایک مضمون میں دلیل دی ہے کہ ایسے تجربات آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی سطح کے دوران دماغی سرگرمی کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سرنگ کے آخر میں روشنی دکھنا ریٹینا میں آکسیجن کی سطح گرنے کا نتیجہ ہو سکتی ہے، جس سے سرنگ کا وژن پیدا ہوتا ہے۔
ہوزے ہرنینڈز کے معاملے میں، موت کے اس تجربے نے ان کے الحاد کو چیلنج کیا اور موت کے بعد کی زندگی کے امکان پر آنکھیں کھول دیں۔