ملک بھر میں جاری ڈالر کی ذخیرہ اندوزی، غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں اور حوالہ ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے سے کترانے لگے ہیں، مارکیٹ میں ڈالر فروش پھل سبزی کی طرح ڈالر آوازیں لگا کر بیچ رہے ہیں لیکن کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاروباری ہفتے کے پہلے دن ہی ڈالر مزید سستا ہوگیا، جس کے بعد انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق انٹربینک میں ڈالر کا لین دین 301.16 روپے پر بند ہوا، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 297 روپے 50 پیسے کا ہوگیا۔
ایک ہفتے کے دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر 29.50 روپے سستا ہوا ہے۔
ایسے میں سینئیر پاکستانی صحافی حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ ’اسلام آباد میں کوئی 280 روپے میں بھی ڈالر خریدنے کو تیار نہیں، ڈالر فروش 270 کی آوازیں لگا رہے ہیں اور عوام الناس مفت مسکراہٹیں نچھاور کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں‘۔
حامد میر کے مطابق ڈالر فروش شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ان کا بہت برا انجام ہوا ہے۔
حامد میر کے اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مختلف ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
دانش وجیح نامی صارف نے طنزیہ لکھا، ’حامد بھائی آپ بھی نا‘۔
ایک اور صارف نے طنزیہ لکھا، ’بس دو تین دن تک ایک روپے کے دس ڈالر ملیں گے‘۔
سید عصمت شاہ نے لکھا، ’میر صاحب 270 میں خرید وفروخت کا بھی کوئی فائدہ بتائیں،عوام کھانے میں ڈالر نہیں روٹی اور سبزی کھاتے ہیں جو ان کی پہنچ سے کیا خواب سے بھی دور ہیں‘۔
جبکہ ایک صارف نے لکھا،’کچھ دیر تک پاکستانی روپے نے کہنا شروع کر دینا ہے کہ میں ڈالر ہوں میں ڈالر ہوں‘۔
ایک صارف نے تو 270 کے بجائے 280 میں ڈالر خریدنے کی پیشکش کردی۔