سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد وفاق سے جواب طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منگل کو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور جمعے کو چیف جسٹس کی عدالت کے معاون نے فریقین کے وکلاء سے رابطہ کیا۔
سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلاء کو فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد ایک سوال بھجوا کر جواب مانگا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا تھا کہ احتساب عدالت دائرہ اختیار میں نہ ہونے پر کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف ریفرنس منتقل کرتی ہے؟ اور وہ کون سی مجاز عدالت ہوگی جو ریفرنس کا فیصلہ سنائے اور کس قانون کے تحت؟
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے 9 ستمبر کو سپریم کورٹ کے سوال کا 5 صفحات پر مشتمل جواب متفرق درخواست کے ذریعے جمع کرا دیا۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان کی اجنب سے جمع کرائے گئے جواب میں لکھا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عدالتی معاون کے ذریعے سوال بھجوایا گیا، سوال کے ساتھ ہدایت بھی پہنچائی گئی کہ فاضل وکیل اس کا لازم جواب دیں۔
جواب میں کہا گیا کہ پاکستان کے قانون میں ابھی تک پارلیمینٹرین ہونا جرم قرار نہیں دیا گیا، چیف جسٹس کے سوال کا جواب مختلف صورتِ حال پر انحصار کرتا ہے۔