سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک اس وقت ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کے لیے ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے، ملک ہے تو ہم سب ہیں، الیکشن کمیشن آئین کے مطابق الیکشن کروائے گا، مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے۔
آج اپنے جاری کردی بیان میں آصف زرداری کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر ہمیں پورا اعتماد ہے، نگران حکومت ایس آئی ایف سی کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالے۔
سابق صدر کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک دن قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں میڈیا بریفنگ کے دوران الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ فوری طور پر آئین کے مطابق 90 دن کے اندر عام انتخابات کرانے کیلئے تاریخ کا اعلان کیا جائے۔
انہوں نے انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی صوبہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ روک دینے کے عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اسی کے ساتھ گذشتہ رات بلاول ہائوس کراچی سے اعلامیہ جاری کیا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری آج، یعنے ہفتے کے روز عوامی مہم کا آغاز کریں گے اور ٹھٹہ سے ہوتے ہوئے بدین جائیں گے جہاں سے حیدرآباد، نیشنل ہائی وے کے ذریعے سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے ملتان پہنچیں گے اور پھر لاہور روانہ ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری اپنی مہم کے آغاز میں ابھی ٹھٹہ کی طرف گامزن تھے کہ راستے میں ہی سابق صدر آصف علی زرداری کا ایسا بیان آگیا جو پیپلزپارٹی کے سابق موقف سے بالکل مختلف تھا۔ جو پیپلزپارٹی نے 25 اگست کو اپنی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے اجلاس میں اپنایا تھا یا جو بلاول بھٹو نے جمعہ کے روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔
پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں کو بہانہ بنا کر عام انتخابات میں تاخیر کرنے پر سخت تنقید کے ساتھ مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کیلئے تاریخ کا اعلان کرے۔
اسی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی سی ای سی کا آئندہ اجلاس لاہور میں ہوگا مگر وہ ابھی تک نہیں ہو سکا نہ ہی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کا انتخابات 90 روز میں کرانے کیلئے اپنے سخت موقف کا اظہار کرتی رہی۔
آصف علی زرداری کے آج کے بیان سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ ان کی جماعت 90 روز کے اندر انتخابات کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔
فقط یہ بلکہ سابق صدر کا بیان کچھ اس زاویے سے دیا گیا تھا جیسے الیکشن کمیشن کی ترجمانی کی جا رہی ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں سیاسی بھنور میں پھنس گئی ہیں جہاں سے نکلنے کی کوشش میں سرگردان ہیں۔
مقتدرہ کا اختیارات پر اپنی گرفت مضبوط کردینے سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا اور یہی وجہ ہے کہ ملک معاشی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ یہ صورتحال 2014ء سے شروع ہوئی جس کے نتائج یہ ہیں کہ ملک سیاسی اور معاشی مشکلات کا شکار ہے۔
ملکی سیاسی صورتحال کا اثر پیپلزپارٹی پر بھی پڑنا ہے۔ آج جو بیان آصف علی زردای نے جاری کیا اس سے محسوس ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان شاید کوئی کمیونیکشن گیپ ہے۔ ورنہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک دن قبل دیئے ہوئے بیان کی تردید آصف علی زرداری نہ کرتے۔
اگر پارٹی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو بھی وہ پارٹی چیئرمین کو کرنا چاہیئے تھی۔ آصف علی زرداری کا بیان 90 ڈگری کا ٹرن ہے جس کی میڈیا پر وضاحتیں بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلزپارٹی کی رہنمائوں کو دینی پڑے گیں۔