اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے اقلیتوں سے متعلق آئین میں دی گئی ضمانتوں کا پاس رکھے۔
سپریم کورٹ میں جڑانوالہ چرچ نذر آتش کرنے کے واقعے پر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
اقلیتی رہنما سیمیول پیارے نے جڑانوالہ واقعے پر نوٹس لینے کے لئے متفرق درخواست دائر کی تھی۔
سرداربشنا سنگھ بابا گرونانک ویلفئیر سوسائٹی کے چئیرمین سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ آپ کی درخواست میں ایک ایشو ٹارگٹ کلنگ کا اٹھایا گیا، دوسرا ایشو آپ نے اٹھایا کہ گوردواروں کی تزہین و آرائش اورمرمت نہیں ہورہی۔
سردار بشنا سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے لوگ 1947 میں اپنا وطن چھوڑ کر ہندوستان گئے، ہم یہیں رہے ہیں اور ہمارے مذمب کا اغاز بھی یہاں سے ہوا تھا، البتہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم سکھ ہیں اس لیے ہمارے خلاف کچھ غلط کیا جا رہا ہے بلکہ قبضہ گروپ مندر، مسجد،گوردوار کچھ نہیں دیکھتا۔
سرداربشنا سنگھ نے لاہور میں گوردواروں کی ٹوٹ پوٹ کی تفصلات سپریم کورٹ میں پیش کردی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانون میں خوف ہے کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ٹارگٹ کلنگ کا شکار مسلمان بھی ہیں مگر ہماری آبادی کم ہے، محمکہ اوقاف گردواروں کی چار دیواری بنائے اورقبصوں سے بچائے۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ ہم تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹ مانگ رہے ہیں، اپ ہمیں مثاثرہ گردواروں کی فہرست دیں۔
سکھ رہنماوں نے سپریم کورٹ میں کرپان سمیت داخلے کی بھی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کرپان مذمبی طور پر ہمارے لباس کا حصہ ہے، سپریم کورٹ میں کرپان اتار کر اندر آنے دیا جاتا ہے۔
اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے اقلیتوں سے متعلق آئین میں دی گئی ضمانتوں کا پاس رکھے۔
عدالت نے سیکرٹری مذہبی امور، چیئرمین اوقاف، اٹارنی اور ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسسز جاری کر دیے اور کہا کہ مام ایڈوکیٹ جنرلز متعلقہ صوبوں سے متعلق رپورٹ پیش کریں اور ریاست سکھ کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنائے۔
سپریم کورٹ نے سکھ برادری کی ٹارگٹ کلنگ افسوسناک قرار دے دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگزکے باعث سکھ برادری کو مختلف مقامات پرمنتقل ہونا پڑ رہا ہے، سکھ برادری کے لوگ پاکستان چھوڑ کر جانے کو مجبور ہو گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریاست کوسکھ برادری کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
عدالت نے آئی جی خیبرپختونخوا سے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر تفصیلی رپورٹ طلب جب کہ سیکریٹری داخلہ اور تمام تمام آئی جیز کو رپورٹس پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قائد اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ اقلیتوں کو تحفط ملے گا۔ عپریم کورٹ نے کراچی میں مندروں کی حالت سے متعلق بھی محکمہ اوقاف کو نوٹس جاری کردیا۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ جڑانوالہ سانحے کے بعد نفرت انگیز تقاریر بھی ہو رہی ہیں، سپریم کورٹ نے کوئٹہ دھماکہ کیس میں کہا تھا کہ ہمیں عیسائی نہیں لکھا جائے گا مگر اب بھی ہمیں عیسائی لکھا جا رہا ہے۔
درخواست گزار سموئیل پیارے نے مزید کہا کہ ایک مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں بستیوں میں گشت کیا جاتا ہے، گشت کر کے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی مذہب کی توہین تو نہیں کر رہا۔
سپریم کورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل، آئی جی پنجاب سے جڑانوالہ رپورٹ جب کہ محکمہ داخلہ پنجاب سے بھی واقعہ کے بعد اقدامات پر رپورٹ طلب کرلی۔