سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف پٹیشن سننے والے پانچ میں سے تین ججز پر سابقہ حکومت کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ بینچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے رکن پر ہراساں کرنے کے لئے دائر کی گئی۔ حکومت نے آڈیوز لیکس کی تصدیق کرکے اور مئی میں پاور شو منعقد کرکے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا۔
پی ڈی ایم حکومت نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنایا تھا جس کی تشکیل سپریم کورٹ بار نے چیلنج کی تھی۔ اس پٹیشن پر پانچ رکنی بینچ قائم کیا گیا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر نقوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔ پی ڈی ایم حکومت نے مفادات کے ٹکراؤ کی بنا پر تین ججوں چیف جسٹس بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی بینچ میں شمولیت پر اعتراضات اٹھائے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ یہ جج خود کو بینچ سے الگ کر دیں۔
حکومتی درخواست پر عدالت نے 6 جون کو سماعت مکمل کی تھی اور فیصلہ جمعہ 8 ستمبر کو (آج) سنایا گیا۔ جس میں حکومتی درخواست مسترد کردی گئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 32 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ 3 ججز پر اٹھائےگئےاعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، کہ بینچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے رکن پر ہراساں کرنے کے لئے دائر کی گئی۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ عدالت نے نوٹ کیا وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے تاخیر کی، عدالت نے نوٹ کیا وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے تاخیر کی۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ وفاقی حکومت نے مختلف حربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر اور عدالت کی بے توقیری کی، عدالت کی بےتوقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023 سے شروع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ چار تین کی اکثریت سے اسپیکر کی درخواست مسترد کی۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ وفاقی حکومت 4 اپریل کے فیصلےکو چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی کے پچھے چھپ گئی، اس کا مقصد اپنی بےعملی کو جواز دینا تھا جب کہ اس کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون منظور کیا جسے سپریم کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی۔
سپریم کورٹ نے6 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 3 ماہ بعد سنا دیا، سابقہ حکومت نے 9 مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ اعتراض کی درخواست دائرکرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا، وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کے خلاف بیان بازی کی، وزرا نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کےخلاف کیس میں اشتعال انگیزبیانات دیے، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے اس رویے کو انتہائی تحمل اور صبرسے برداشت کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ججز پر حملے کی ایک مثال 15مئی کو سامنے آئی، 15 مئی کو عدالت الیکشن کمیشن کی4 اپریل کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پرسماعت کررہی تھی، 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں14 مئی کوانتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، 15 مئی کو حکومت کی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہرجارحانہ مظاہرہ کیا، جارحانہ مظاہرے میں چیف جسٹس پاکستان کو سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی گئیں، دھمکیاں دینے کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ مبینہ آڈیو گفتگو سامنے آنے کے بعد حکومت نے آڈیو کلپس کی چھان بین کیے اور لیک کرنے والے کے کردار کے تعین کے بغیر ان کی تصدیق کردی۔ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کی اس طرح کی کردار کشی میڈیا کے سامنے اور پارلیمنٹ میں کی گئی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومتی اقدامات کا مقصد بینچ کے ایک رکن کو ہراساں کرنا تھا اور اس کے اعتراضات عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شامل 3 ججز پراعتراضات عائد کیے تھے۔
واضح رہے کہ حکومت نے مبینہ آڈیوز کی انکوائری کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا، کمیشن میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بھی شامل تھے۔
26 مئی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجربینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر کی درخواستوں پر کام کرنے سے روک دیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواست دائر کی تھی۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ بابراعوان کے توسط سے دائر آئینی درخواست میں استدعا کی تھی کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قراردیا جائے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے بھی آڈیو لیکس کمیشن کی جانب سے طلبی کا نوٹس چینلج کرتے ہوئے درخواست میں وفاق، آڈیو لیکس کمیشن، پیمرا اور پی ٹی اے کو فریق بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن آئین کی خلاف ورزی ہے۔
عابد زبیری نے درخواست میں مؤقف اپنایا تھاکہ کسی بھی شہری کی جاسوسی یافون ٹیپنگ نہیں کی جا سکتی، آڈیو لیک کمیشن کا نوٹیفکیشن آرٹیکل 9، 14،18، 19، 25 کی خلاف ورزی ہے، کمیشن کی تشکیل، احکامات اور کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر سابقہ وفاقی حکومت انکوائری کمیشن کو مبینہ آڈیوز کے ساتھ ٹرانسکرپٹ بھی مجاز افسر کے دستخط سے جمع کرواچکی تھی۔ مجموعی طور پر8 آڈیوز جمع کرائی گئیں جن میں افراد کے نام، عہدے اور دستیاب رابطہ نمبرز کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔
ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل آفس نے جن 8 مبینہ آڈیوز سے متعلق ناموں کی فہرست تیارکی اس میں نام سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہیٰ، عمران خان، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، موجودہ چیف جسٹس کی خوشدامن ماہ جیبیں نون، صحافی عبدالقیوم صدیقی، پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے جمشید چیمہ، وکیل خواجہ طارق رحیم اور ان کی اہلیہ رافیہ طارق کا نام بھی شامل تھا۔
اس کے علاوہ فہرست میں صدر سپریم کورٹ بارعابد زبیری، سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم ثاقب اور ابوذر مقصود چدھڑ کے مطابق علاوہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کا نام بھی شامل تھا۔
حکومت نے 20 مئی کو ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے سینئر رین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے تھے، دیگر 2 ارکان میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اخترافغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق شامل تھے۔
اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا۔
موجودہ چیف جسٹس، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کے داماد سمیت آڈیو لیکس کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا۔ کمیشن یہ بھی دیکھے گا کہ کونسی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔