نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ الیکشن جنوری فروری سے پہلی بھی ہوسکتے ہیں، اگر سپریم کورٹ آف پاکستان 90 دن میں انتخابات کا فیصلہ دے گی تو اس پر بھی عمل کیا جائے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی کو دیے گئے انٹرویو میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ نیشنل انوسٹمنٹ فیسیلیٹشن کونسل (این آئی ایف سی) کے ذریعے ہونے والے معاشی اقدامات کے نتائج دسمبر کے آخر تک آنا شروع ہو جائیں گے۔
آپ کو لگتا ہے کہ انتخابات جنوری یا فروری میں ہوجائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ہوسکتا ہے اس سے پہلے بھی ہوجائیں، لیکن چونکہ اس کاتعین الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے تو پم بھی اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی وہ تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے جڑی ہوئی جتنی بھی تیاری ہے وہ مکمل کرکے، ان کو سپورٹ کرکے جو آئینی فریضہ ہے وہ ادا کریں اور گھر کو جائیں‘۔
نگراں حکومت سے غیرمعمولی توقعات کے سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جو بھی وقت ہمیں دیا گیا ہے ہم ایمانداری سے توقعات پر پورا اترنے اور اہداف پورے کرنے کی اپنی تئیں پوری کوشش کریں گے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے پہلے ہی ہفتے میں اپنی ترجیحات کو درست کرلیا، ہمیں اپنے تجارتی خسارے کا اندازہ ہے اور اس کا حل بھی پتا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے، مثال کے طور پر شمالی امریکہ، یورپی یونین اور جی سی سی کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات ہیں، ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کو خطوں میں تقسیم کردیں، ہم سینٹرل ایشیا، کاکسز، ترکیہ اور ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات بڑھائیں۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ سستی توانائی نہیں فراہم کریں گے تو آپ کو مینوفیکچرنگ سیکٹر کیسے درست ہوگا۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدات کیے ہوئے ہیں ان میں مداخلت، گردشی قرضوں کو کنٹرول میں لانے اور ریوینیو جنریٹ کرنے کیلئے ایف بی آر کی اصلاحات یا جسے آپ ڈجیٹلائزیشن آف اکنامی کہتے ہیں ، اس کے توسط سے آئی ٹی منسٹری کی طرف سے ہمارے پاس پلان آگیا ہے۔
دورِ اقتدار کے اس ایک مہینے میں سب سے بڑے چیلنج کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ایک لفظ میں مجھے بتانا ہو تو معیشت، معیشت اور معیشت‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہوا تو ہم نے کہا کہ فوراً بجلی پیدا کرنی چاہیے، یہ جانے بغیر کہ اس بجلی کی کھپت کہاں ہوگی، انڈسٹریل سیکٹر میں کیسے ہوگی ڈومیسٹک سیکٹر میں کیسے ہوگی، اس کا اکنامک ماڈل قابل عامل ہے یا نہیں، میں (آئی پی پیز سے کیے) معاہدوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔
آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان میں تبدیلی کے سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’جب آپ بطور ریاست معاہدات کرتے ہیں تو وہ بعض اوقات فائدہ مند ہوتے ہیں اور بعض اوقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، لیکن آپ کو ان کی پاسداری کرنی ہوتی ہے، بین الاقوامی طور پر ایسا نہیں ہوسکتا کہ کل کو آپ کہہ دیں کہ یہ معاہدہ چونکہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے تو میں نہیں کرتا۔ یہ ممکن نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی آئی پی پی پیز کے ساتھ جو معاہدات ہوچکے ہیں، ان میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہاں کہاں مداخلت کرکے کیپیسیٹی چارج جو ہمیں دینا پڑ رہا ہے اس کی ارینجمنٹ درست کی جاسکے۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔
نگراں حکومت کے اختایارات سے تجاوز کرنے کے سوال پر وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ایک طرف مشکل فیصلوں کیلئےدباؤ ہے تو دوسری طرف دباؤ ہے کہ آپ الیکشن کرائیں اور جائیں، ہمیں ایک بیلنس قائم کرنا ہے، ’اس میں کوئی شک نہیں ہے، ہم یہاں نہ لانگ ٹرم (طویل مدت) کیلئے آئے ہیں نہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے، کسی کے ذہن میں اس طرح کا خیال ہے تو وہ غلط فہمی دور ہوجائے تو بہتر ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ قوانین کے زریعے جو ہمیں اختیارات دیے گئے ہیں، خصوصی طور پر معاشی میدان میں ’وہ دیے اس لیے گئے ہیں کہ وہ مشکل فیصلے جو مستقبل میں بھی کوئی سیاسی جماعت اگر نہ لے سکے تو جو خلاء ہمیں بائی چانس مل گیا ہے اسے پُر کریں‘۔ اس کا فائدہ عمومی طور پر عوام اور خصوصی طور پر اگلی حکومت بنانے والی سیاسی جماعت کو ہوگا کہ جو فیصلے کرلیے گئے انہیں آگے بڑھا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں 90 فیصد لوگ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے، لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے، مشکل فیصلوں سےمستقبل میں بہتری آئے گی، ڈیجیٹلائزیشن سے کرپشن میں کمی آئے گی، اس معاملے میں جتنی ہم انسانی مداخلت کم رکھیں گے اتنی شفافیت اور کرپشن کم ہوگی، ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔
نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ان فیصلوں پر احتجاج آئے، لیکن عمومی طور پاکستان کے عوام ان فیصلوں سے طویل مدت تک مستفید ہوں گے.
آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی بلوں میں محدعد ریلیف دیے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ ہم دور حاضر کے نیرو ہیں اور بانسری بجائے جا رہے ہیں، ہمیں کسی کا کوئی خیال نہیں، ایسا قطعاً نہیں ہے، آج سے سال ڈیڑھ سال پہلے میرا اتنا بجلی کا بل آیا کہ میرا دل کیا زور زور سے روؤں، مجھے احساس ہے کہ یہ دقت سامنے آتی ہے تو جذباتی طور پر لوگ کیسے اس سے گزرتے ہیں۔
ہم اس نہج پر اس لیے پہنچے ہیں کہ لوگ جو اپنے حصے کا بوجھ نہیں اٹھا رہے محکمے وہ بوجھ دوسروں پر ڈال کر ان سے ریکوریز کر رہے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ اس سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ کیا حکومت چند ہفتوں میں یہ مسائل حل کرسکتی ہے؟ آئی پی پیز سے معاہدے ہیں، بجلی چوری روکنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے مسئلہ کے حل کیلئے مڈٹرم پلان چاہئے، ہم ڈسکوز کی نجکاری کا عمل شروع کر رہے ہیں، جس کے بعد ڈسکوز بجلی چوری رکنے کے اقدامات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ قابل عمل پلان ہم دے چکے ہیں، حکومت کی مدت پوری ہونے تک کچھ بہتری آئے گی، بجلی پر ریلیف کیلئے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے، توانائی کی بچت کیلئے بھی صوبوں سےمشاورت جاری ہے، مغرب تک کاروباری مراکز بند کرانے پر بات ہورہی ہے، شرعی طور پر مغرب کے بعد کسی کے گھر جانا منع ہے۔
ایسا تاثر جارہا ہے کہ فوج اور نگراں حکومت الگ الگ کام کر رہے ہیں، اس بات کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی یہ تاثر کیوں جارہا ہے، پاکستان ملٹری آئین کے تحت حکومت کا ایک جُز ہے، ہم نے جہاں جہاں فوج کو مدد کی درخواست کی ہے فوج نے فوراً اس پر عمل کیا ہے، دن میں کئی بار مختلف معاملات پر پاک فوج سے رابطہ ہوتا ہے، عسکری قیادت کی ملاقاتیں بھی اسی سلسلہ کاحصہ ہیں، پاک فوج بھی پالیسیز پرعملدرآمد کیلئے مدد کررہی ہے، میں اور وہ الگ مل رہے ہیں یہ تاثر دینا غلط ہے۔ نگراں حکومت اور پاک فوج کا ہدف ایک ہی ہے، فیصلے کرنا حکومت کا کام ہے، فوج سے تعاون لیا جاتا ہے، میرٹ پر اداروں سے مدد لی جاتی ہے۔
انوارالحق کاکڑ اسٹبلشمنٹ کے آدمی ہیں؟ اس سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ میں اُن کا آدمی ہوں یہ سیاست کا غیرضروری عنصر ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اُن کے رہیں، ہم اُن کے ہوتے ہیں، پھر اُن سے ناراض ہوجاتے ہیں، پھر سے اُن کے ہونا چاہتے ہیں، یہ معاملہ چلتا رہتا ہے۔
جو پروجیکٹس جاری ہیں جنوری یا فروری میں الیکشنز اگر ہوجاتے ہیں تو کیا اس وقت تک کام مکمل ہوجائے گا؟ اس سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہمارا یہ نکتہ نظر نہیں ہے کہ ہر کام ہمارے دور میں ہو، ہم سمت ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں، آئندہ حکومت اسے آگے لے کر چلے گی۔
کاروباری افراد کے آرمی چیف سے میثاق معیشت کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت اچھا نعرہ ہے، میں اس کے حق میں ہوں، میثاق معیشت سیاسی جماعتوں نے کرنی ہے، سیاسی جماعتوں نے میثاق معیشت کو عوام میں لے جانا ہے، میں بحیثیت فردسیاسی جماعتوں کویہ ایجنڈانہیں دےسکتا، یہ جماعتوں کے اندر خود پروگرام ہونا چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت پر بات کرنی چاہئے، سیاسی جماعتوں کو مشترکہ نکات پر متفق ہونا چاہئے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم نگراں سیٹ اپ ہیں میثاق معیشت ہمارا کام نہیں۔
غیرملکی سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات میں سرمایہ کاری آنے کی امید ہے، ریکوڈک کے علاوہ جو سیکٹرز ہیں وہاں پر متحدہ عرب امارات، سعودیہ عرب اور قطر نے سرمایہ کاری میں دلچسپی لی ہے، ’25 سے لے کر 50 بلین ڈالرز تک سرمایہ کاری یہاں آسکتی ہے‘۔
اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ایک ریٹائر فوجی افسر کو چئیرمین نادرا لگانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی ایسے بیک گراؤنڈ کا شخص ہو جس کا سیکیورٹی میں بھی تجربہ ہو اور رولز آف بزنس کے تحت ان کو بھی آپشن کے تحت استعمال کیا جائے تو ہمیں اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی‘۔ ہم نے جو روزل آف بزنس پاس کیے ہیں اس میں آپشن رکھ دیا ہے کہ کوئی سینئیر سول سرونٹ یا ملٹری بیوروکریٹ دونوں کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے ٹاسک فورس بنانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا سے متعلق عالمی قوانین بھی موجود ہیں، سوشل میڈیا کےمعاشرے پر مختلف اثرات ہیں، اسےعوام کی آگاہی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے، دہشت گرد سوشل میڈیا سے انتہا پسندی پھیلاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا عوام کی آواز دبانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ٹی ٹی پی سے ماضی کے معاہدے اور حالیہ دہشتگردی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کے ڈھول نہیں پیٹیں گے، ہماری ترجیح اب اس خطرے سے نمٹنا ہے، اس کیلئے متعدد حکمت عملیاں سامنے ہیں، افغان حکومت کے اپنے مسائل ہیں، افغان حکومت سے بات چیت کرنا بھی اہم ہے، ہم افغانستان کو ایشیا کا قلب سمجھتے ہیں، افغانستان میں کچھ ہوتا ہے تو پورا ایشیا متاثر ہوتا ہے۔
ہندوستان سے تجارت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بھارت کےساتھ صرف تجارتی تعلقات اہم نہیں، بھارت برابری کی بنیاد پر مذاکرات کیلئے تیار نظر نہیں آتا، پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا بھارت کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم 9 مئی کے واقعات میں کسی پاکستانی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اُن لوگوں کے خلاف ہیں جو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے۔