پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے حکام اور اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے اہم ستون کے طور پر نیٹ میٹرنگ کی حمایت جاری رکھیں۔
منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کو صاف اور سستی توانائی کی منتقلی میں ایک سنگ بنیاد کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جو پاکستان کو شمسی توانائی اپنانے کی عالمی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے کہا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے، اس کی وجہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے کیپیسیٹی چارجز ہیں۔
ایسوسی ایشن نے اسے ایک غلط اور گمراہ کن اندازہ قرار دیا ہے، جس سے ملک میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامر چوہدری نے کہا، ’اصل مسئلہ توانائی کی بے تحاشہ چوری کا ہے، جس کے نتیجے میں تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کے ریونیو کی وصولی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’رواں سال فروری میں سیکرٹری پاور ڈویژن راشد محمود لنگڑیال نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک میں ہر سال 380 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ اسی بریفنگ میں، انہوں نے کہا تھا کہ چوری شدہ بجلی کی مد میں 520 ارب روپے کا اثر اگلے مالی سال (یعنی اب رواں مالی سال) سے صارفین کو بلوں میں منتقل ہونا ہے۔
پی ایس اے کے چیئرمین نے اس بات پر زور دیا کہ نیٹ میٹرنگ ایک پائیدار توانائی کا حل ہے جو صارفین کو سولر پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کرنے اور اضافی بجلی واپس گرڈ میں ڈالنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف بجلی کے بلوں کو کم کرتا ہے بلکہ قومی گرڈ میں اضافی توانائی کا حصہ ڈالتا ہے، جس سے صارفین اور ماحول دونوں کے لیے جیت کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
عامر چوہدری کے مطابق دوسری طرف، بجلی کی چوری، ادائیگی کرنے والے صارفین کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی ریکوری شارٹ فال کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ کی مالی اعانت کی لاگت کی صورت میں پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ، ہمارے بجلی کے بل بہت سارے ٹیکسوں سے لدے ہوئے ہیں، جیسے کہ بجلی کی ڈیوٹی 1.5 فیصد، جی ایس ٹی 18 فیصد، مزید ٹیکس اور اضافی ٹیکس 5 فیصد اور اضافی 3 فیصد، اور یہاں تک کہ ایڈوانس انکم ٹیکس۔ بل کی کل مالیت کا 5 فیصد سے 12 فیصد اضافی ہے‘۔
عامر چوہدری کے مطابق اس کے نتیجے میں صارفین کو بلوں کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ترغیب ملتی ہے، جس سے مسئلہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی چوری سے نمٹنے کے لیے گورننس اور چوکسی کو بڑھانے یا بجلی کے بلوں پر اتنے بڑے ٹیکس لگانے کے اثرات کا از سر نو جائزہ لینے کے بجائے، شمسی توانائی کو بلاجواز نشانہ بنا کر اس مسئلے کو ٹالا جا رہا ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے IPPs اور DISCOs کے اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈے کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا جو اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں اور سولر انڈسٹری کے اعتماد اور ترقی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز، مورخہ 10 فروری 2023 کے معاملے میں نیپرا کے حکم کے مطابق، نیپرا نے ذکر کیا ہے کہ ’مہنگی بجلی کی ترسیل، زرمبادلہ کی بچت اور کم سے کم نقصانات کے لحاظ سے نیٹ میٹرنگ کے معاشی فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’مزید برآں، اس وقت نیٹ میٹرنگ یونٹس کی مقدار بہت کم ہے، یعنی DISCOs کے ذریعے خریدی گئی کل توانائی کے 1 فیصد سے کم‘۔
پی ایس اے کے چیئرمین نے کہا، ’پاکستان میں شمسی توانائی کے شعبے میں نہ صرف صاف اور پائیدار توانائی فراہم کرنے بلکہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی بھی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔‘
البتہ، پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ ایک پائیدار توانائی کا حل ہے جو صارفین کو شمسی پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کرنے اور اضافی بجلی کو گرڈ میں واپس کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف بجلی کے بلوں کو کم کرتا ہے بلکہ قومی گرڈ میں اضافی توانائی کا حصہ ڈالتا ہے، جس سے صارفین اور ماحول دونوں کے لیے جیت کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ نیٹ میٹرنگ کو فروغ دے کر، پاکستان سولر ایسوسی ایشن پائیدار اور ماحول دوست توانائی کے طریقوں کے لیے اپنے عزم کو واضح کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’ہم ایک ایسے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں جہاں پاکستان کی توانائی کا منظر نامہ زیادہ پائیدار اور ماحول دوست ہو۔ اس وژن کو حاصل کرنے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ حکومت شمسی توانائی کے شعبے کے ساتھ کھڑی ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک منصفانہ اور سازگار ماحول کو یقینی بنائے۔‘