’میں سمجھتا تھا کہ زیادہ سنگین مسئلہ نہ ہو تو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کیلئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑا رہنے سے بہتر ہے کہ انسان کسی گلی محلے کے ڈاکٹر (عطائی) سے علاج کرالے‘، یہ الفاظ ضلع مردان کے علاقہ میران امان کلے سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ سلیم خان کے ہیں۔
ایک سال قبل سلیم کو آئے روز جسم میں درد اور بخار کے باعث علاج کے لئے اپنے علاقے کے عطائی کے پاس جانا پڑ رہا تھا، تاہم غلط انجیکشن کے ری ایکشن کے باعث سلیم کا ہاتھ کافی زیادہ سوج گیا جس کیلئے انہیں سرجری سے گزرنا پڑا۔
سلیم نے بتایا کہ انجیکشن لگوانے سے انہیں فوری ریلیف ملتا تھا، اس لئے وہ انجیکشن کو ہی علاج سمجھنے لگے تھے ، تاہم پھر غلط انجیکشن کے ری ایکشن نے ان کی پوری فیملی کو کافی دنوں تک پریشان رکھا۔
یہ کہانی صرف سلیم کی نہیں بلکہ پشاور کے علاقہ شیخ آباد سے تعلق رکھنے والی 48 سالہ روبینہ بی بی کی بھی ہے، جنہیں اسی قسم کی مشکل سے گزرنا پڑا۔
روبینہ نے بتایا کہ عام بخار ہونے کی وجہ سے جب انہیں عطائی کے کلینک جانا پڑا تو غلط انجیکشن کی وجہ سے ان کا ہاتھ سوج گیا اور پھر انہیں سرجری کروانی پڑی۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ایبٹ آباد کے جنرل سرجن اور میڈیکل آفیسر ڈاکٹر احتشام خان نے بتایا کہ غلط یا کپڑے کے اوپر سے انجیکشن لگانے سے جسم میں پیپ یا انفیکشن ہوسکتا ہے، جبکہ رگوں کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں، جس کے لئے سرجری لازمی ہے۔
پروونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر امیر تاج کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا میں مریضوں کی تعداد زیادہ اور ڈاکٹروں کی تعداد انتہائی کم ہے، اس وجہ سے علاج کا معیار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ عطائی سے علاج کی طرف رجحان بڑھتا ہے۔
ڈاکٹر امیر تاج سمجھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کو کم از کم ایک مریض کو 15 سے 20 منٹ دینے چاہئیں، جبکہ ایک ڈاکٹر کو ڈیوٹی اوقات میں زیادہ سے زیادہ 20 مریضوں کا چیک اپ کرنا چاہئے۔
امریکہ کے نیشنل سینٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن کے مطابق بھی مریض کے معائنے کے لیے مناسب اور کم سے کم دورانیہ 20 منٹ ہونا چاہئیے۔
پشاور میں زرعی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف رورل ڈویلپمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر شائستہ ناز کی ”ہیلتھ کیئر سیکنگ بیہوئیر“ سے متعلق تحقیق کے مطابق خیبرپختونخوا میں 44 فیصد آبادی علاج کیلئے عطائیوں کے کلینکس کا رخ کرتی ہے، جبکہ 56 فیصد مستند ڈاکٹروں کے پاس جاتی ہے۔
تاہم قطاروں میں کھڑا رہنے سے بچنے کیلئے اور سرکاری ہسپتالوں میں عملے پر زیادہ اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے مستند ڈاکٹروں سے علاج کروانے والوں میں سے بھی 68 فیصد افراد نجی کلینکس کو ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹک کی ویب سائٹ پر موجود نئی یا ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق خیبرپختونخوا کی مجموعی آبادی 4 کروڑ 85 لاکھ 97 افراد مشتمل ہے جس میں 47 لاکھ 58 ہزار 562 افراد کیساتھ پشاور سے زیادہ آبادی والا اور 2 لاکھ 445 افراد کے ساتھ تورغر سب سے کم آبادی والا ضلع ہے۔
محکمہ صحت خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق مجموعی طور پر خیبرپختونخوا میں 6 ہزار 416 ڈاکٹرز، 366 ڈینٹل سرجنز اور 3 ہزار 885 نرسز موجود ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے تناسب سے 1 ہزار افراد کیلئے 1 ڈاکٹر یا اسپیشلسٹ ہونا چاہیئے، تاہم محکمہ صحت کی دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا موجودہ آبادی کے حساب سے 6 ہزار 24 افراد کیلئے 1 ڈاکٹر یا اسپیشلسٹ موجود ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق اس وقت خیبرپختونخوا میں مجموعی ڈاکٹروں کی تعداد 40 ہزار 856 ہونی چاہئے۔
اسی طرح ڈبلیو ایچ او کے تجویز کردہ تناسب کے مطابق ایک ڈاکٹر یا اسپشلسٹ کے حساب سے چار نرسز ہونے چاہئیں، اس حساب سے خیبرپختونخوا میں اس وقت 16 لاکھ 3 ہزار 424 نرسز ہونے چاہیئں، تاہم محکمہ صحت کے دستاویز کے مطابق خیبرپختونخوا میں موجودہ ڈاکٹرز کے تناسب سے بھی 23 ہزار 243 نرسز کی کمی ہے کیونکہ صوبے میں صرف 3 ہزار 885 نرسز ہیں۔
محکمہ صحت کی دستاویز کے مطابق ضلع سوات میں سب سے زیادہ 742 ڈاکٹرز یا اسپیشلسٹ ہیں، لیکن سوات میں بھی ڈاکٹروں کی تعداد ڈبلیو ایچ او کے تناسب کے مطابق نہیں ہے، کیونکہ سوات کی آبادی 26 لاکھ 87 ہزار 384 افراد پر مشتمل ہے۔
اس حساب سے سوات میں 3 ہزار 419 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق سوات میں 2 ہزار 687 ڈاکٹرز درکار ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے پشاور میں سب سے زیادہ افراد ہیں تاہم محکمہ صحت کے دستاویز کے مطابق پشاور میں صرف 742 ڈاکٹرز یا اسپیشلسٹ موجود ہیں، جہاں ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق 4 ہزار 758 ڈاکٹروں کی ضرورت ہے کیونکہ پشاور میں 6 ہزار 413 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہے۔
محکمہ صحت کی دستاویز کے مطابق ضلع تورغر، کولئی پالس اور لوئر کوہستان میں سب سے زیادہ طبی عملے کی کمی کا سامنا ہے، کیونکہ کولئی پالس میں ڈاکٹروں کی مجموعی تعداد صرف 5، لوئر کوہستان میں 7 اور تورغر میں 8 ہے، جبکہ ان تین اضلاع میں کوئی ڈینٹل سرجن اور نرس نہیں ہے۔
ضلع تورغر میں 2 لاکھ 445 افراد کی آبادی کے تناسب سے 200 ڈاکٹروں، لوئر کوہستان میں 3 لاکھ 40 ہزار 17 افراد کی آبادی کیلئے 340 اور کولئی پالس کی 2 لاکھ 80 ہزار 162 افراد پر مشتمل آبادی کیلئے 280 ڈاکٹرز ہونے چاہئیں۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے مطابق آسٹریا اور ناروے میں ایک ہزار افراد کیلئے 5 سے زائد ڈاکٹرز دستیاب ہیں، جبکہ فرانس اور برطانیہ میں 3 سے زائد ڈاکٹرز ہیں۔ اسی طرح کینیڈا، چین اور کوریا میں 2 سے زائد ڈاکٹرز موجود ہیں۔
بھارت کی وزارت صحت کا دعویٰ ہے کہ 2018 میں بھارت نے ڈبلیو ایچ او کا معیار حاصل کیا ہے، کیونکہ انڈیا میں 834 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جو ڈبلیو ایچ او معیار سے بھی زیادہ ہے، تاہم بھارت نے ڈاکٹرز کی تعداد میں آیوش (آیوروید، یوگا، نیچروپیتھی، یونانی سدھا ماہرین) کو بھی شامل کیا ہے جو انڈیا کے دعوے کو متنازع بنا دیتا ہے۔
پشاور کی کلینکل سائیکالوجسٹ عرشی ارباب نے آج نیوز کو بتایا کہ ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ مناسب رویہ انتہائی ضروری ہے، کیونکہ کسی مریض کیلئے آدھا علاج ڈاکٹر کا مناسب وقت اور رویہ ہے، لیکن جب ڈاکٹر مریض کو مناسب وقت نہیں دیتا تو اس کے نفسیاتی طور پر مریض پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں، کیونکہ ڈاکٹر کی جانب سے درکار وقت نہ ملنے اور نامناسب رویہ کی وجہ سے مریض ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے اور وہ نہ صرف علاج کو ترک کرنا شروع کر دیتا ہے بلکہ میجر ڈپریشن کی صورت میں خودکشی کی طرف بھی مائل ہوسکتا ہے۔
سائیکولوجسٹ عرشی کا کہنا تھا اسی طرح مریضوں کی زیادہ تعداد کے ڈاکٹروں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کیونکہ ڈاکٹرز صرف مریض کو علاج نہیں دیتا بلکہ مختلف مریضوں کے مختلف رویوں کا سامنا رہتا ہے اور منفی رویوں کے باعث ڈاکٹرز کا اپنی فیملی کے ساتھ رویہ نامناسب ہوسکتا ہے، کیونکہ نامناسب رویہ غصے کی عوامل میں سے ایک ہے جبکہ تھکاوٹ کی وجہ سے ڈاکٹر فیملی کو بھی وقت نہیں دے سکتا اور فیملی اور دوستوں کے اسی دباؤ کے باعث ڈاکٹرز بھی ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔
عرشی ارباب نے اپنے ایک ڈاکٹر مریض کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ مریضوں کے بوجھ کے باعث اس ڈاکٹر کی شخصیت میں بہت سی تبدیلیاں آئی تھیں کیونکہ وہ ڈپریشن اور سٹریس کا شکار ہوچکے تھے اور یہاں تک کہ دوست اور فیملی ممبرز اس ڈاکٹر سے ناراض تھے۔
مردان میڈیکل کمپلیکس کے ٹرینی میڈیکل آفیسر ڈینٹسٹ زین العابدین نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چار بنیادی وجوہات کی بناء پر مریض عطائیوں کے پاس جاتے ہیں جس میں غربت، لاعلمی، عطائی تک آسان رسائی اور فوری ریلیف شامل ہیں۔
ڈاکٹر زین کا کہنا تھا کہ غربت اور مہنگائی انتہائی زیادہ ہے جس کی وجہ سے مریض مستند ڈاکٹروں سے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے، جبکہ سرکاری ہسپتال کی او پی ڈی میں اسی ڈاکٹر سے علاج کرانے کیلئے رش کی وجہ سے گھنٹوں قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے، ایسے میں مریض کو دن کی دیہاڑی کی فکر ہوتی ہے، یا پھر چند ڈاکٹرز او پی ڈی میں مریضوں کو اتنی توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ مریض ان کے نجی کلینک کا رخ کرلے۔
ڈاکٹر زین نے لاعلمی سے متعلق بتایا کہ جب تک شہریوں کو ”نیم حکیم خطرہ جان“ کا مفصل اندازہ نہیں ہوگا وہ اسی طرح عطائیوں سے علاج کو ترجیح دیتے رہیں گے۔
ڈاکٹر زین کا کہنا تھا کہ مستند ڈاکٹرز کی نسبت عطائیوں تک رسائی انتہائی آسان ہے، کیونکہ عطائی ہر وقت گلی محلے میں دستیاب رہتا ہے، جبکہ مستند ڈاکٹرز کے مخصوص دن اور اوقات ہوتے ہیں، اسی طرح عطائی کی فیس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جبکہ مستند ڈاکٹرز کی نہ صرف فیس بہت زیادہ ہوتی ہے بلکہ بیماری کی تشخیص کیلئے ہزاروں روپے کے مختلف ٹیسٹس بھی کرنے پڑتے ہیں۔
ڈاکٹر زین نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں مستند ڈاکٹرز کی عموماً فیس ایک ہزار سے لیکر تین ہزار تک ہوتی ہے جو عطائی کے مقابلے 10 گنا زیادہ ہے، کیونکہ عطائیوں کی فیس 50 سے لیکر 200 روپے تک ہوتی ہے۔
ڈاکٹر زین کا فوری ریلیف یا علاج کے بارے میں کہنا تھا کہ مستند ڈاکٹرز سے علاج طویل المدتی ہے جبکہ درد، بخار، زکام، ہیضہ سمیت ایسی بیماریوں کی صورت میں عطائی کا علاج فوری ہوتا ہے، کیونکہ عطائی سارا کام انجیکشن سے چلاتا ہے جو ایک مستند ڈاکٹر کبھی نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک خطرناک اور شدید نقصان دہ عمل ہے۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ویب سائٹ پر موجود دستاویز کے مطابق ہرسال خیبرپختونخوا میں 10 سرکاری اور 11 نجی میڈیکل کالجز سے تقریبا 2 ہزار 635 طلباء ڈاکٹر بن کر فارغ ہوتے ہیں، جبکہ 5 سرکاری اور 6 نجی ڈینٹل کالجز سے تقریبا 644 ڈینٹل سرجن فارغ ہوتے ہیں۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق پاکستان سے ہر سال باہر جانے والے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
دستاویز کے مطابق سال 2020 میں 1 ہزار 223، سال 2021 میں 1 ہزار 691، سال 2022 میں 2 ہزار 464 اور رواں سال اب تک 2 ہزار ڈاکٹرز ملک چھوڑ چکے ہیں، جبکہ 1971 سے اب تک مجموعی طور پر 33 ہزار 343 ڈاکٹرز پاکستان سے باہر جاچکے ہیں۔
جرنل آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود نازلی حسین، نصرت شاہ، طاہرہ شاہ اور سدرہ لطیف کی جانب سے ”ڈاکٹروں کی نقل مکانی: پاکستانی میڈیکل طلباء کے تاثرات“ کے موضوع پر تحقیق میں بھی معلوم ہوا ہے کہ 53 فیصد میڈیکل کے طلباء ملک چھوڑنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نہ صرف روزگار کے مواقع اور تنخواہیں انتہائی کم ہے بلکہ نظام صحت بھی انتہائی کمزور ہے۔
پروونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر امیر تاج نے عطائیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بتایا کہ عطائیوں کے باعث مستند ڈاکٹروں کی بدنامی ہوتی ہے جبکہ مریضوں کو انتہائی خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ڈاکٹر امیر تاج نے بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مشکل سے 500 ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر سال ہزاروں طلباء میڈیکل اور ڈینٹل کالجز سے فارغ ہوتے ہیں تاہم ڈاکٹروں کیلئے روزگار کے مواقع نہیں ہیں، کیونکہ حکومت کے پاس موجودہ طبی عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے پیسے نہیں، اس لئے گزشتہ چند سالوں میں خیبرپختونخوا سے تقریبا 15 ہزار میڈیکل کے طلباء کالجز سے فارغ ہونے کے بعد بیرون ممالک جاچکے ہیں۔
خیبرپختونخوا ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2015 کے مطابق ”عطائی“ سے مراد کوئی بھی ایسا شخص ہے جو کمیشن کے ذریعہ رجسٹرڈ یا لائسنس یافتہ ہونے کا اہل نہیں ہے یا وہ شخص یا ادارہ جو لائسنس کے برعکس دیگر خدمات بھی فراہم کر رہا ہو۔
ایکٹ کے سیکشن 28 کے تحت عطائی طریقہ علاج جرم ہے جس پر مجرم کو 6 ماہ کی قید یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہے۔
خیبرپختونخوا ہیلتھ کیئر کمیشن سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران شکایات موصول ہونے پر 6 ہزار 971 کلینکس کا معائنہ کیا گیا، جس میں غیرمعیاری سہولیات پر 1 ہزار 569 کلینکس کو سہولیات معیار کے مطابق کرنے کیلئے ںوٹسز جاری کئے گئے جبکہ 777 عطائی ڈاکٹرز کے کلینکس کو سیل کردیا گیا۔
خیبرپختونخوا ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر ندیم اختر نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ مریضوں کی حفاظت ہیلتھ کیئر کمیشن کی ترجیح ہے اور عطائیوں کے خاتمے کے ذریعے اسے یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے، اس لئے صوبے بھر میں نہ صرف آگاہی مہم چلائی جارہی ہیں، بلکہ عطائیوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، تاہم اس لعنت کو ختم کرنے اور مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے لوگوں کی سماجی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی عطائیوں سے علاج نہ کریں۔
ڈاکٹر ندیم کا کہنا تھا کہ عطائی پوری دنیا میں موجود ہیں اور عطائیوں کو ختم کرنا ممکن نہیں، تاہم کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہیلتھ کیئر کمیشن کے پاس اتنا عملہ نہیں کہ مسلسل کاررائیوں کو جاری رکھا جاسکے، اس لئے عطائیوں پر جرمانہ عائد کرنے اور کلینک سیل کرنے کے بعد وہ دوبارہ اپنا کام شروع کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم نے کہا کہ ہیلتھ کیئر کمیشن نے عطائیوں کی نشاندہی کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیدی ہیں جو جلد کام کا آغاز کریں گی، جس کے بعد صوبے میں نہ صرف عطائیوں کی مکمل فہرست تیار کی جاسکیں گی بلکہ عطائیوں کے خلاف مؤثر کارروائی بھی ممکن ہوگی۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے ترجمان محمد عمیر خان نے بتایا کہ اگر کوئی مستند یا رجسٹرڈ ڈاکٹر بھی کوئی غیر قانونی کام یا غلط علاج میں ملوث پایا جاتا ہے تو پی ایم ڈی سی کی ڈسپلنری کمیٹی ملزم ڈاکٹر کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لاسکتی ہے، جس میں جرمانہ، لائسنس منسوخی اور جعلی ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ تک درج کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ لائسنس منسوخی کی صورت میں مجرم ڈاکٹر دنیا میں کہیں بھی بطور ڈاکٹر کام نہیں کرسکتا۔
مزید براں پی ایم ڈی سی ریگولیشن کے مطابق غفلت برتنے پر ادارہ ڈاکٹر کے خلاف ازخود نوٹس بھی لے سکتا ہے۔
محمد عمیر خان نے بتایا کہ یکم جنوری 2022 سے اب تک خیبرپختونخوا سے 22 ڈاکٹروں کیخلاف شکایات موصول ہوئیں ہیں جن میں سے مکمل سماعت کے بعد 2 کو بری اور ایک ڈاکٹر پر 5 لاکھ جرمانہ عائد کرکے 6 ماہ کے لئے معطل کیا گیا جبکہ 19 کیسز زیر سماعت ہیں۔
عمیر خان نے کہا کہ پی ایم ڈی سی ایک نہایت ذمہ دار ادارہ ہے جو ملک میں مریضوں کے علاج کیلئے قابل معالج/ڈاکٹروں کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبرپختونخوا ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ عطائیوں کی روک تھام اور صحت سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے بنیادی صحت مراکز (بی ایچ یوز) کو مزید فعال بنانے کے لئے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ ڈاکٹروں کی کمی سے فوری نمٹنے کے لئے کنٹریکٹ بنیادوں پر 6 ماہ کے لئے ڈاکٹروں کی بھرتیاں جلد عمل میں لائی جارہی ہے اور ابتدائی طور پر ہر ضلع میں درکار یا خالی آسامیوں پر ڈاکٹرز کنٹریکٹ بنیاد پر بھرتی کئے جائیں گے۔ جبکہ شہریوں کو خود بھی عطائیوں کے پاس نہیں جانا چاہیے۔
تاہم اس مسئلہ کے مستقل حل کے لئے پالیسی پر کام جاری ہے اور آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب حکومت کو پالیسی پیش کرکے مستقل ڈاکٹرز کی بھرتیاں عمل میں لائی جائیں گی، کیونکہ نگراں حکومت کے پاس مستقل بھرتیوں سے متعلق اقدامات اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔