سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ (سابقہ ٹوئٹر) کو امریکا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور سعودی عرب کی مدد کرنے کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے۔ یہ مقدمہ سعودی امدادی کارکن کی بہن عریج السدھن نے دائر کیا ہے جنہیں زبردستی لاپتہ کیا گیا تھا اور پھر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
عریج کا الزام ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے سعودی حکام کے کہنے پر صارف کا خفیہ ڈیٹا افشا کیا۔
الزماتا میں کہا گیا کہ سی ای او جیک ڈورسی کی قیادت کے دور میں ٹوئٹر کو سعودی حکومت کی ناقدین کے خلاف مہم کا علم تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کے ایک اعلیٰ مشیر نے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کی کوشش میں مملکت کو مدد فراہم کی۔
یہ مقدمہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ایک سعودی عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس نے ایک شخص کو صرف اس کی ٹوئٹر اور یوٹیوب سرگرمی کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی تھی۔
مقدمے میں احمد ابوعمو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جسے امریکا میں خفیہ طور پر سعودی ایجنٹ کے طور پر کام کرنے اور ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: ایران میں دو خواتین صحافیوں کو ’سازش کرنے‘ پر جیل
ابوعمو نے سعودی حکام کو فراہم کردہ صارف کے خفیہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور سعودی عرب بھیجی۔
عریج کی جانب سے دائر مقدمے میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ ابوعمو نے ٹوئٹر کے میسجنگ سسٹم کے ذریعے ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القحطانی کو ایک پیغام بھیجا تھا۔
ابوعمو نے لکھا تھا کہ ’فعال اور رد عمل سے ہم برائی کو ختم کر دیں گے، میرے بھائی‘۔
القحطانی پر امریکا نے 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے بے رحمانہ قتل کے ماسٹر مائنڈ میں سے ایک ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔
نظرثانی شدہ مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر یا تو اس پیغام سے واقف تھا، یا جان بوجھ کر اس سے لاعلم تھا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ پلیٹ فارم کو اندرونی ذاتی ڈیٹا کو لاحق سیکورٹی خطرات کا کافی علم تھا۔
اس نشاندہی نے پلیٹ فارم کے ہزاروں صارفین کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔