Aaj Logo

اپ ڈیٹ 31 اگست 2023 08:33pm

اسلام آباد میں 24 سالہ افغان لڑکی نے خودکشی کیوں کی

اسلام آباد کے علاقے بی-17 میں 24 سالہ افغان لڑکی مریم سادات نے شدید ڈپریشن کا شکار ہو کر عمارت کی پانچویں منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

یہ صرف ایک مریم نہیں تھی جو ڈپریشن کا شکار تھی، بلکہ ہر دوسری افغان خاتون اسی طرح کے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے۔

پاکستان میں مقیم قندھار کی نازو (فرضی نام) اس المیے کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔

”میں خود اسی کفیت کا شکار رہی ہوں اور جب یہاں اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ یہ نشانیاں تو محبت یا پیار نامی بیماری کی لگتی ہیں، کیا آپ بھی اُسی مرض میں مبتلا ہو۔ تو میں نے جواب دیا کہ ’ہاں میں محبت میں مبتلا ہوں لیکن اپنے وطن کی جس پر طالب نے قبضہ کر لیا ہے۔ وہ طالب جو خود کو پختون کہتا ہے، لیکن وہ پختون نہیں وہ تو غلام ہے اور غلام کھبی پختون نہیں ہو سکتا۔‘“

وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والی نازو 15 اگست 2021 سے قبل اپنے وطن افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لئے ایک مضبوط آواز سمجھی جاتی تھیں، جو میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر افغان عوام کے لئے کام کرتی تھیں، لیکن ان کے ملک میں حکومت کی تبدیلی نے جہاں اور کئی خواتین کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، وہیں انہی میں سے ایک نازو بھی تھیں۔

تین بچوں کی ماں نازو ایک ”سنگل مدر“ کے طور پر اب پاکستان میں نہایت مشکل معاشی اور معاشرتی حالات میں اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔

اسلام آباد میں خودکشی کرنے والی مریم سادات اور نازو ایک ہی کشتی کی سوار ہیں۔

مریم سادات نے خودکشی کیوں کی

بیٹی کی موت کے غم میں نڈھال 50 سالہ بسمینہ (فرضی نام) مریم کی ماں نے آج ڈیجنٹل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رات کا کھانا ہم نے اکٹھے کھایا، وہ بظاہر ٹھیک تھی لیکن مجھ سے اکثر کہتی تھی کہ ’یہاں زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے، چلو ماں کہیں اور چلتے ہیں‘، تو میں بولتی کہ ’کہاں جائیں گے ہمارے ویزوں کے ری نیول کا مسئلہ ہے‘۔

بسمینہ نے بتایا کہ میری بیٹی پڑھی لکھی لڑکی تھی، لیکن یہاں اسے روز گار نہیں مل رہا تھا، ایک جگہ کام کی بات چل رہی تھی لیکن وہاں سے بھی اسے مایوسی ہوئی، اوپر سے گھر کا کرایہ جبکہ بجلی کا 50 ہزار روپے کا آگیا۔

بسمینہ نے بتایا کہ اُس رات انہی باتوں میں کافی رات ہوگئی تو میں سونے کے لئے لیٹ گئی، لیکن مریم اپنے منگیتر سے بات کر رہی تھی جومزار شریف میں رہتا ہے۔ وہ اس سے پیسے بھجوانے کا تقاضا کر رہا تھا لیکن مریم نے اُسے بتایا کہ ان کے پاس تو خود کے اخراجات کے لئے پیسے نہیں تو وہ اسے کہاں سے رقم لا کر دے۔ ان کے معاشی حالات روز بروز خراب ہو رہے ہیں۔ کبھی ایک سے قرض مانگتے ہیں کبھی دوسرے سے، جس کو اتارنا مشکل ہے۔

’ایسے میں منگتیر کی طرف سے پیسوں کی ڈیمانڈ نے اسے توڑ کر رکھ دیا‘۔

بسمینہ کے مطابق بس اسی پریشانی نے میری بیٹی کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ ’اُس نے فون بند کیا تو کچھ دیر بعد عمارت کی پانچویں منزل سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ جب وہ نیچے گری تو اس کی حالت بہت خراب تھی اگرچہ پڑوسی اسے گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے گئے لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی اور راستے میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئی‘۔

بسمینہ نے بتایا کہ 6 ماہ قبل ہی انہوں نے اپنی بیٹی مریم کی مزار شریف میں رہائش پذیر رشتہ دار سے منگنی کی تھی، لیکن نہ اس کو پاکستان آنے کا ویزہ مل رہا تھا نہ مریم کا ویزہ ری نیو ہو رہا تھا، جبکہ خود بسمینہ اپنے ”P2“ ویزا کی منظوری کے لیے طویل عرصے سے منتظر ہے۔

پی ٹو ویزا امریکہ کی جانب سے ان افغان باشندوں کو جاری کیا جاتا ہے جنہوں نے افغانستان میں امریکی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والے کسی نہ کسی منصوبے میں کام کیا ہو۔

پانچ بچوں کی ماں بسمینہ کے دو بیٹے غیرقانونی تارکین وطن کیس میں ترکیہ میں گرفتار ہیں، جن کی رہائی بدنصیب خاندان کے لئے الگ ایک مسئلہ ہے۔

امریکی ویزے کے منتظر سینکڑوں خاندان

نازو کا خاندان بھی معاشی مسائل کی چکی میں پس رہا ہے۔

نازو نے آج ڈیجیٹل سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کے والد یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، جن کی صدر اشرف غنی کے دور میں ریٹائرمنٹ ہو گئی، لیکن جب طالبان کی حکومت آئی تو انہوں نے سرکاری ملازمین کی پنشن بند کر دی، جس کی وجہ سے ان کے گھرانے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔

ایک طرف ملازمت پیشہ خواتین کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا گیا تو دوسری طرف گذشتہ حکومت کے جاسوس ہونے کے شک کی بنیاد پر کئی سرکاری ملازمین کے خلاف طالبان کی طرف سے لوگوں پر کریک ڈاون اور ان کی تنخواہوں یا پنشن کی بندش اپنی جگہ ایک اور مسئلہ بن گیا، جس سے نمٹنے اور روز گار کی تلاش میں سینکٹروں افراد اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

نازو مغربی قوتوں سے بھی شکوہ کناں نظر آئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جن کو 20 سال کی جنگ سے افغانستان نہیں ملا وہ 16 روز میں پورے افغانستان پر کس طرح قابض ہو جاتے ہیں۔ یہ کہانی ایسی نہیں کہ جس کا جاننا کوئی مشکل کام ہے‘۔

مریم سادات کی خودکشی پر تبصرہ کرتے ہوئے نازو نے کہا کہ میں خود جب پاکستان آئی تو شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا تھی۔ ایک عجیب سا خوف تھا جس نے ہم خواتین کو گھیر رکھا تھا۔ راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ میں نے اپنا علاج کروایا تو کچھ افاقہ ہوا۔

نازو کے مطابق ایک طرف بے روز گاری دوسری طرف پاکستان میں 15 اگست کے بعد آنے والے افغان مہاجرین کے ساتھ پولیس کا رویہ اور پھر معاشرتی سطح پر افغان باشندوں کے ساتھ روز کے معاملات میں مشکلات۔ ہر ایک مرحلہ کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ویزے کی ری نیول سے پولیس کے بے جا کے چھاپوں اور تفتیش کے دوارن انہیں بہت اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، ہر جگہ پیسے دے کر جان چھڑانی پڑتی ہے اور یہ رقم ہزاروں میں نہیں بلکہ بعض اوقات لاکھوں میں بھی ہوتی ہے، جس کا انتظام ایک الگ مسئلہ بن جاتا ہے۔

نازو نے بتایا کہ سقوط کابل کے بعد 4 سے 6 ماہ تک کچھ غیر ملکی اداروں نے افغان باشندوں کی مدد کی، لیکن پھر آہستہ آہستہ سب ختم ہو گیا۔ ویزے کے انتظار میں موجود سینکڑوں افراد اب بھی افغانستان اور پاکستان میں کسمپرسی کی ذندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انہی میں سے ایک مریم سادات بھی تھی جس نے بالآخر ہمت ہار کر موت کا راستہ چن لیا۔

Read Comments