چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ غلطی ہے کہ اگر49 کروڑکا ملزم ہے تواس کا کیس ہی ختم ہو جائے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست پرسماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس منصورعلی شاہ شامل ہیں۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کے آغاز میں حمیدالرحمٰن چوہدری کی کتاب کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حمید الرحمٰن مشرقی پاکستان کےسیاست دان تھے جنہوں نے اپنے ٹرائل کی کہانی لکھی۔ انہیں اس بات پرسزا دی گئی تھی کہ پبلک آفس سےپرائیویٹ کال کیوں کی؟۔
مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ مغربی پاکستان سے تفتیشی افسران اورجج لے کرجاتے تھے۔ یہی وہ حالات تھے جومشرقی اورمغربی پاکستان کوآمنے سامنےلائے۔ آئین قانون سازوں کو بااختیاربناتا ہے کہ وہ آج ایسے قوانین کو نہ پنپنےدیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس ہمارے لیے ایجوکیشنل بھی ہے۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہی ماضی سے کیا جاتا رہا ہے اور قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں۔
مخدوم علی کا کہنا تھا کہ سال 1996 میں احتساب آرڈیننس آیا جس کا اطلاق 1985 سے کیا گیا جب کہ 1997 میں دو احتساب آرڈیننس آئے جن کا اطلاق بھی 1985 سے ہی کیا گیا۔
نیب وکیل نے کہا کہ نیب قانون 1999 میں بنا، چیلنج کی گئی 2022 کی ترامیم اور نیب قانون کا اطلاق 1985 سے کیا گیا جب کہ پی ٹی آئی دور میں ہونے والی ترامیم کا اطلاق بھی اسی سال ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا یہ نکتہ سمجھ چکے ہیں، مگر ایمنسٹی اسکیم کونیب آرڈیننس سےاستثنی کیوں دی گئی؟ عدالت کواب بے نامی دار سے متعلق نیب ترامیم پر دلائل دیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ بے نامی دارریفرنسزمیں بنیادی کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا تھا، نیب ترامیم میں بےنامی دار کی تعریف تبدیل کردی گئی اور اب نیب ترامیم سے یہ لازم قرار دیا گیا ہےکہ پہلے پراسیکیوشن ثابت کرے کرپشن کے پیسے سے بے نامی جائیداد بنی یا نہیں۔
بے نامی کے خلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے، سپریم کورٹ
فاضل جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب ترامیم سے استغاثہ پرغیرضروری بوجھ ڈالا گیا ہے، بے نامی کے خلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے، کم از کم یہ طے ہونا ضروری ہے کہ اثاثے کرپشن سے تو نہیں بنائے گئے۔
اس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ کرپشن ثابت کرنے کیلئے صرف بے نامی دارکاالزام لگا دینا کافی نہیں، پراسیکیوشن کو ثابت بھی کرنا ہوگا کہ بے نامی دارہے یا نہیں، البتہ عدالت کا کام قانون میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے نیب ترامیم اور ان کاماضی سے اطلاق غیر آئینی نہیں، بے نامی دار کے کیس میں معاملہ آمدن سے زائد اثاثوں کا ہوتا ہے، اب کہا گیا ہے آپ پہلے ثابت کریں کہ وہ اثاثے کرپشن سے بنائے، یہ ایک نئی چیز سامنے آئی۔
اب نئے قانون کےمطابق بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں، نیب وکیل
فاضل جج کا کہنا تھا کہ اب نئے قانون کےمطابق بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں، اب مسئلہ اس رقم کابن گیا ہے کہ وہ کرپشن سے آئی یا نہیں، لہٰذا ایسا کرنا ہے تو پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کو جرم کی کیٹگری سے نکال دیں، یہ تو احتساب کی ریڑھ کی ہڈی تھی،۔
نیب وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ نیب نے لوگوں کے لاکرز توڑے گھروں میں گھسے اور پھر ملا بھی کچھ نہیں، خورشید شاہ کیس کے فیصلے میں عدالت نے کچھ چیزیں واضح کیں، عدالت نے کہا پراپرٹی کس کے قبضے میں ہے اور منافع کون لے رہا ہے دونوں چیزوں کا تعین ضروری ہے۔
ہر بے نامی ٹرانزیکشن یا پراپرٹی کرپشن نہیں ہوتی، نیب وکیل
اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے آمدن سے زائد اثاثوں پر پہلے ثابت کیا جائے وہ کرپشن سے بنے۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ پراسیکیوشن اگرالزام لگا رہی ہے تواس کے پاس ثبوت ہونا لازمی ہے، ہر بے نامی ٹرانزیکشن یا پراپرٹی کرپشن نہیں ہوتی۔
لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہا، چیف جسٹس
عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثرنہیں ہورہے، اس پر نیب وکیل نے کہا کہ میری گزارش یہی ہے کہ بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہا۔
مخدوم علی نے کہا کہ مختلف ادوار میں جرائم سے نمٹنے کیلئے مختلف طریقہ کار اپنایا جا سکتا ہے، ہوسکتا ہے پارلیمنٹ نے معاشی صورتحال کے پیش نظریہ ترامیم کی ہوں، کراچی میں مجھ سے کوئی چیک وصول کرکے آئی فون فروخت کرنے پر تیار نہیں تھا، اس لئے مجھے اسلام آباد آکرآئی فون لینا پڑا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جائیداد دبئی میں ہو تو سراغ کیسے لگایا جائے گا؟ اس پر نیب وکیل نے جواب دیا کہ دبئی پاکستان کو رپورٹ کرتا ہے اور اب تو سوئٹزرلینڈ سے بھی معلومات مل جاتی ہیں، البتہ عدالتیں نیب سے ماضی میں کہتی رہیں کہ نیب صرف میگا کرپشن کیس دیکھے۔
وکیل مخدوم علی نے کہا کہ 50 کروڑ کی حد آج کے دور میں کوئی غیر فطری حد نہیں ہے، جو پراپرٹی کبھی اسلام آباد میں ایک کروڑ کی خریدی گئی تھی اب وہ کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ 1999 سے لیکر اب تک پبلک سیکٹر اداروں کی کارکردگی دیکھیں، پی آئی اے اور بجلی سپلائی کمپنیوں کو دیکھ لیں، دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر میں دیکھیں معیشت میں لوگوں نے چیزیں مینج کی ہیں۔
حکومتی وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے،ا س کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل شروع کردیے۔
49 کروڑ روپے کے ملزم کا کیس ختم کرنا بہت بڑی غلطی ہے، چیف جسٹس
خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ 2018ء سے 2021 تک نیب نے تفتیش پر 18 ارب روپےخرچ کیئے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ 18 ارب روپے خرچ ہوگئے آپ قانون نہیں تبدیل کر سکتے یہ کون کر سکتا ہے، یہ بہت سنجیدہ غلطی ہے کہ اگر49 کروڑکا ملزم ہے تواس کا کیس ہی ختم ہو جائے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ روز 30 اگست کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سے مستفید افراد کی نئی فہرست طلب کررکھی ہے۔
چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا، ’کچھ نیب ترامیم بہت ذہانت کے ساتھ کی گئیں، اٹارنی جنرل آپ نے تو تسلیم کیا قوانین میں مطابقت نہیں، جو قانون سازی کی گئی اس سے چیف جسٹس پاکستان کو ربڑاسٹمپ بنا دیا گیا ہے‘۔