سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس میں پیدا ہوچکا فرق زیر بحث آیا۔
سینیٹرمحسن عزیز نے نشاندہی کی کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں زیادہ فرق ہے۔
سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے اس معاملے کی نشاندہی کرنے کا مقصد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) معاہدے کی جانب اشارہ کرنا تھا۔ کیونکہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ریٹس کا زیادہ فرق معاہدے کے خلاف ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے کہا تھا کہ اوپن اور انٹربینک مارکیٹس میں ڈالر کی قیمت میں فرق ایک اعشاریہ دو پانچ فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے، اس کے باوجود دونوں کرنسی مارکیٹس میں ڈالر کی قیمت میں 14 روپے سے زائد کا فرق پیدا ہوچکا ہے۔
بدھ کو کاروباری کے اختتام تک انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 304.44 روپے پر آچکی تھی، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 319 روپے میں فروخت ہوا۔
کمیٹی اجلاس میں نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگر آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو ڈالر کی آمد رک جائے گی اور معاشی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ کرنسی ایکسچینج میں استعمال ہونے والی دو الگ الگ شرح ہیں۔
اوپن مارکیٹ ریٹ کا تعین اوپن مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ فورسز کے ذریعے کیا جاتا ہے، جبکہ انٹربینک ریٹ ایک دوسرے سے کرنسیوں کی خرید و فروخت کرنے والے بینکوں کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے۔
انٹربینک ریٹ عام طور پر صرف سب سے بڑے اور سب سے زیادہ قابل اعتبار مالیاتی اداروں کے لیے ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، اوپن مارکیٹ ریٹ وہ شرح ہے جو گاہک عام طور پر حوالہ ہنڈیوں، مقامی کرنسی ایکسچینج یا دیگر ریٹیل فارن ایکسچینج فراہم کنندہ پر کرنسی کا تبادلہ کرتے وقت وصول کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔
یہ دونوں شرحیں ماضی قریب میں مختلف انتہاؤں سے مختلف رہی ہیں۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ یہ دونوں مارکیٹیں کافی حد تک آزاد ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار نہیں کرتیں۔ لیکن ایسا مکمل طور پر درست نہیں ہے۔
فارن ایکسچینج کمپنیاں کاروباری دن کے اختتام پر اپنے خالص انفلوز (کرنسیز) کو انٹربینک میں جمع کراتی ہیں ۔ اس طرح یہ بھی اسی سسٹم کا حصہ بن جاتی ہیں۔
عام طور پر دو شرحوں کے درمیان فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایکسچینج کمپنیاں بعض اوقات کمیشن کی جگہ مارجن وصول کرتی ہیں تاکہ پیسہ کماسکیں۔
نتیجتاً انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں فرق پیدا ہوتا ہے۔
عام حالات میں، دونوں شرحوں میں فرق کم ہوتا ہے۔ تاہم، اتار چڑھاؤ کے وقت یہ فرق بڑھ سکتا ہے۔
بعض اوقات انٹربینک ریٹ اوپن مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بہت نایاب ہے لیکن ہوا ہے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا تھا کہ ڈالر کی کم آمد اور زیادہ اخراج کی وجہ سے روپیہ دباؤ میں ہے۔
دیگر ممالک میں لوگ صرف اس وقت ایکسچینجز کا رخ کرتے ہیں جب انہیں کہیں سفر پر جانا ہوتا ہے اور انہیں دوسرے ملک کی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ بلاوجہ دوسری کرنسیاں نہ تو خریدتے ہیں اور نہ ہی ذخیرہ کرتے ہیں۔
منطق یہ ہے کہ جب زرمبادلہ کی مانگ ہوتی ہے تو اوپن مارکیٹ ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب لوگ زیادہ سفر کر رہے ہوں، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جا رہے ہوں، یا اپنی جمع پونجی کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
ان دنوں اوپن مارکیٹ ریٹ میں اضافے کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے، کیونکہ اس سے ایکسچینج مارکیٹ میں تیزی سے پیسہ کمایا جاسکتا ہے۔
بچت کرنے والوں نے اپنی جمع پونجی کو ڈالر میں تبدیل کرکے مانگ میں مزید اضافہ کیا ہے۔
تاہم، چونکہ مہنگائی کی وجہ سے ملک چھوڑنے والوں میں تیزی آگئی ہے تو لوگ غیر ملکی کرنسی کے لیے کرنسی ایکسچینج کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
تاہم، ماہر معاشیات ڈاکٹر طلعت انور نے روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ کیلئے آئی ایم ایف کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
آج ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طلعت انور نے کہا کہ اس سے پہلے حکومت نے آئی ایم ایف کی وجہ سے بہت سی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں، امپورٹس بند تھیں، صرف اشیائے ضروریہ کی درآمد کی اجازت تھی اور لگژریز کیلئے ایل سیز بند تھیں۔
طلعت انور نے کہا کہ ’میرے نقطہ نظر سے یہ ٹھیک اقدام تھا‘، کیونکہ ڈالر محدود تھا اور صرف ضروری چیزوں کیلئے رکھا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’اب جیسے ہی آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ ریسٹرکشن (پابندی) بھی ہٹاؤ اور ڈالرز کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ کھل گئی، کیونکہ لوگوں نے ایل سیز کھولنا شروع کردیں، اس کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر دیمانڈ کرنے لگا۔‘
روپے کی قدر میں گراوٹ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طلعت نے کہا کہ ’وہ (آئی ایم ایف سے) تھوڑے سے ڈالر آئے تھے، اور کچھ انہوں نے ڈونرز (دوست ممالک اور دیگر ذرائع) سے انہوں نے رول اوور کیے تھے، تو یہ تھوڑا سا پیسہ آیا تھا جو پچھلی رکی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کیلئے ناکافی تھا، یوں سارا پریشر انٹربینک مارکیٹ پر آگیا، آپ نے دیکھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود روپیہ دنوں میں 300 عبور کرگیا۔‘
انہوں نے اوپن مارکیٹ ریٹ میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اوپن مارکیٹ ریٹ کا فرق پہلے کم تھا لیکن اب یہ بہت زیادہ ہے، ’پہلے گورنمنٹ نے اجازت دی تھی کہ کریڈٹ کارڈ پیمنٹس اوپن مارکیٹ سے ہوں گی، کیونکہ اس ملک میں امیروں کا ایک بڑا طبقہ باہر جاتا ہے اور شاپنگز کرتا ہے، اور جب شاپنگز کرتا ہے تو وہ ڈالر معاہدوں اور ویزا کارڈ کے زریعے بینکوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں، جس سے انٹربینک مارکیٹ پر پریشر آتا تھا، اس لیے اسٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ ڈالرز انٹربینک کے بجائے اوپن مارکیٹ سے لیں گے، یوں ڈیمانڈ شفٹ مختصراً ہوگئی تھی جس سے اوپن مارکیٹ پر پریشر پڑا، ایک وجہ تو یہ ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے انٹربینک مارکیٹ میں جو ریٹ بڑھتا جارہا ہے، اس حوالے سے مارکیٹ میں کچھ قیاس آرائیاں ہوئیں کہ آئی ایم ایف معاہدے میں لکھا ہے کہ ڈالر 300 سے کراس ہوگا اور سوا 300 تک جائے گا، ان خبروں کی وجہ سے لوگوں نے جتنا بھی ان کے پاس پیسہ تھا وہ ڈالرز سے تبدیل کرنا شروع کردیا جس سے اوپن مارکیٹ پر پریشر آگیا’۔
ڈاکٹر طلعت کے مطابق ’کیپیٹ فلائٹ‘ بھی ایک وجہ ہے، لوگ ہنڈی حوالہ کے زریعے ڈالرز باہر بھیجتے ہیں کہ باہر پیسہ محفوظ رہے گا، ’اب سبھی جانتے ہیں کہ کون لوگ ہیں یہ‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب فارمل چینلز سے امپورٹس بند کردی گئیں، ایل سیز بند ہوگئیں تو چیزیں اسمگل ہونا شروع ہوگئیں، ظاہر ہے اسمگلنگ کے زریعے آنے والی چیزوں کی ادائیگی بھی ڈالرز میں ہونی ہے تو یوں اوپن مارکیٹ میں ڈالرز کی طلب بڑھ گئی، اس میں ایران کا بھی کیس ہے افغانستان کا بھی کیس تو یہاں بھی ڈالر باہر جارہا ہے۔
ڈاکٹر طلعت کے مطابق یہ سارے چینلز ہیں جن کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ پر پریشر بھی آرہا ہے اور ان کے ریٹس کے درمیان فرق بھی آرہا ہے جو ملک کیلئے بہت خطرناک ہے، کیونکہ بیرونی رضے دنوں میں بڑھ جائیں گے اور پھر مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اسمگلنگ، ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی کیخلاف سخت ایکشن لینا چاہئیے اور کیپیٹل فلائٹ میں ملوث ایکسچینج کمپنیز اور ذرائع کو چیک کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔