سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں نگراں وزیرِ خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ میں تو سوچتی ہوں میں نے یہ عہدہ کیوں قبول کیا۔
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کمیٹی اجلاس میں شرکت کے دوران کہا کہ ملکی معیشت سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ہے، سیاسی عدم استحکام کیلئے معزز سیاسی لوگ فیصلے کریں گے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ ایک ہفتے کے بعد معیشت پر کمیٹی کو بریفنگ دیںگے کہ ہمارے لئے کیا کرنا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں۔
نگراں وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف معاہدے پر کہا کہ یہ معاہدہ ہمیں ورثے میں ملا ہے اس پردوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ دوسرے دوطرفہ قرضے جڑے ہیں، بدقسمتی سے ہم نے معیشت کو کمزور کرنے کیلئے تمام کام کئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیل کے حوالے سے ہمارا دنیا پر انحصار ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے، ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوٹیلیٹی شعبے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیا جس سے واپسی ممکن نہیں۔
کمیٹی نے وزیرِ خزانہ سے روپے کی قدر اور ملکی معیشت پر نھی بریفنگ طلب کرلی۔
سینیٹرکامل علی آغا نے استفسار کیا کہ بجلی کے زائد بلوں میں عوام کو کس طرح ریلیف دیا جاسکتا ہے؟
سینیٹرمحسن عزیز نے نشاندہی کی کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں زیادہ فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ نگراں وزیر خزانہ کا گورنر اسٹیٹ بینک کا بھی تجربہ بھی ہے، ایل سیز کا معاملہ بہت گھمبیرہوتا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک جس طرح کام کررہا ہے، کسی خاتون خانہ کوبھی گورنرلگا دیں وہ بھی چلا لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعت کاروں سمیت گھریلو صارفین بھی احتجاج کررہے ہیں۔
جس پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایل سیز کے حوالے سے اسٹیٹ بینک میں ایک ڈیسک بنایا گیا ہے۔
سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملکی صورتحال سنگین ہوچکی ہے، عوام بجلی کے بل نہیں دے سکتے، ہمارے بجلی کے بل پر اس خطے میں سب سے زیادہ ٹیکس لگے ہیں، غریب اگر بل دینا بند کردیں گے تو ریونیو کہاں سے ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ریلیف پر کوئی بات چیت ممکن ہے؟ دو اور سرچارج لگنے جارہے ہیں جس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔