سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پرنئی ترامیم سے مستفید ہونے والے افراد کی فہرست طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ، ’ترامیم بہت ذہانت کے ساتھ کی گئیں، قانون سازی سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ربڑسٹیمپ بنا دیا گیا، نیب ترامیم میں ایسا توکچھ برا تھا کہ جس نےاس عدالت کے دروازے کھولے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترمیمی بل کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی ۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصورعلی شاہ شامل ہیں۔
سابق وزیر اعظم کی جانب سے اُن کے وکیل خواجہ حارث اور وفاق کی جانب سے مخدوم علی خان پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ان سے مکالمہ کیا، ’گُڈ ٹو سی یو‘ ۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ، ’آپ کہاں تھے اٹارنی جنرل صاحب؟ آپ نگراں حکومت کا حصہ ہیں آ جایا کریں‘۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ، ’عدالت کے صرف دو منٹ لوں گا۔ کل اخبار میں عدالت کی آبزرویشنز پڑھی، ،میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرل ایکٹ میں سقم ہیں‘۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت کا حکم نامہ پڑھیں سمجھ نہیں آ رہی انگریزی اخبارات میں خبر رپورٹر کے نام سے شائع کیوں نہیں کی جا رہی، معلوم نہیں کیا یہ کوئی سنسرشپ کا نیا طریقہ ہے؟۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تو تسلیم کیا قوانین میں مطابقت نہیں، کچھ ترامیم بہت ذہانت کے ساتھ کی گئیں، جو قانون سازی کی گئی اس سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے بہت متحرک رہی۔ لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجرزاورری ویو ایکٹس پر نظرثانی پارلیمان کی ترجیحات میں نہیں تھی‘۔
جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ ری ویو ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی۔
چیف جسٹس نے کہا، ’آپ کی ہربات مانیں گے مگر یہ بات تسلیم نہیں کریں گے، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو ایکٹ پر نظرثانی ترجیحات میں نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’مخدوم علی خان ہمیں لکھ کردے دیں آپ بہت جلدی بول رہے ہیں، آپ کی باتیں مجھے سمجھ نہیں آرہیں، تب سے صرف آپ کو دیکھ رہا ہوں‘۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وقت کم ہے اس لیے جلدی جلدی دلائل دے رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مبشر حسن کیس میں واضح کیا گیا قانون سازی کا اطلاق ماضی سے ہوسکتا ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار ہے۔
وفاق کے وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم سے عدلیہ کی آزادی کا کوئی تعلق نہیں، قانون سازی سے عدلیہ کے اختیار بالکل کم نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا، ’آپ کے مطابق نیب ترامیم عدلیہ میں مداخلت نہیں ہے‘۔
اس پروفاق کے وکیل بولے، ’بالکل نیب ترامیم عدلیہ کے اختیارات سے الگ معاملہ ہے‘۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم اتنا ہی بڑا مسئلہ ہوتا تو کوئی شہری انہیں چیلنج کرتا، کسی مالیاتی ادارے نے ترامیم چیلنج کیں نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے۔ عدالت سے ایسے شخص نے رجوع کیا جو خود پارلیمان سے بھاگا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم کن بنیادی حقوق سے متصادم ہیں آج تک سامنے نہیں آ سکا، عجیب سی بات ہے کہ اس مقدمہ کو ہم اتنے عرصے سے سن کیوں رہے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ احتساب کے نام پر ضیاء نے مشرقی پاکستان کےرہنماوں کو نااہل کیا، ماضی کے قوانین نے مجیب الرحمان پیدا کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب اس تنازعہ کے اصل مدعے پر آرہے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ آئینی طور پر کس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس ٹارگٹ کو کتنے وقت کیلئے اندر رکھا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک دو کیسز میں دھوکہ دہی کے معاملات پر ثالثی چل رہی ہے، کچھ لوگوں کے ساتھ اربوں روپوں پر ثالثی کے ذریعے مفاہمت کی جا رہی ہے، امید ہے آپ کو معلوم ہوگا میں کیا بات کررہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے نہ کہ بااثرافراد کی وجہ سے عوام مشکلات کا سامنا کریں، یقینی بنایا جائے کہ عوام کو کوئی اور تدبیرکرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، مسابقتی کمیشن سے پوچھیں نہ کہ کتنے افراد نے معیشیت پر مونا پلی بنا رکھی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کے دلائل کو ہی آگے لے کرچلوں تو موسمیاتی تبدیلی بھی ایک مسئلہ ہے، موسمیاتی تبدیلی کے بعد سیلاب اور دیگر وجوہات سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، ان تمام بنیادی حقوق کے بجائے ایک قانون سازی کو کیوں لے کر بیٹھے رہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اگرعدالت ایسے تمام معاملات کو دیکھنا شروع کردے تو دن میں 24 گھنٹے کم پڑ جائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا نیب ترامیم عوامی مفاد کا تحفظ کر رہی ہیں، عوامی پیسے کو کرپشن کی نظر تو نہیں کیا جاسکتا، آئین کے تناظرمیں ہم نے ان ترامیم کو دیکھنا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کو نئی پارلیمنٹ کیلئے کیوں نہیں چھوڑا جاسکتا، نئے انتخابات ہوں گے نئی اسمبلی آجائے گی تو اسی کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیئے، سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی میں نہیں پڑنا چاہیے، نیب ترامیم اس نے چیلنج کیں جوخود پارلیمنٹ سے بھاگا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم میں ایسا تو کچھ برا تھا کہ جس نے اس عدالت کے دروازے کھولے۔
عدالت نے نیب ترامیم سے مستفید افراد کی نئی فہرست طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔