کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل میں ملوث 5 پولیس افسران بغیر کسی کارروائی کے اپنے فرائض سرانجام دے دے ہیں۔
کینیا کے ایک دور افتادہ علاقے میں گاڑی پر فائرنگ سے سڑک پر زرشد شریف کو قتل کیے جانے کے 9 ماہ بعد ملوث 5 پولیس افسران مکمل مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ان کی معطلی کینیا کے حکام کی طرف سے ایک دکھاواثابت ہوئی ہے۔
باوثوق سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچوں پولیس اہلکار کام پر واپس آ گئے ہیں جن میں سے دو کو سینئررینک میں ترقی دے دی گئی ہے۔
کینیا کی انڈیپینڈنٹ پولیسنگ اینڈ اوور سائٹ اتھارٹی (آئی پی او اے)جسے ان افسران کے طرزعمل کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، نے 9 ماہ سے زیادہ گزر جانے کے باوجود رپورٹ عام نہیں کی۔
ٹائم اسکیل دینے سے انکارکرنے والے اتھارٹی ترجمان نے یہ بھی نہیں بتایا کہ واچ ڈاگ نے اتنا وقت کیوں لیا اور پولیس افسران بغیر کسی احتساب کے ملازمت پرواپس کیوں آ رہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی پی او اے نے پہلے ہی اپنی فائل ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن (ڈی پی پی) کے دفتر کے حوالے کردی تھی لیکن اسے واپس کردیا گیا تھا اوراستغاثہ کا عمل شروع ہونے سے پہلے کچھ خلا پُرکرنے کے لئے کہا گیا تھا۔
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) سے منسلک ایک پولیس افسر کیون کیمویو متوکو، جسے مبینہ طور پرجائے واردات پر گولی ماری تھی،اسپتال سے فارغ ہونے کے فورا بعد کام پر واپس چلا گیا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ جب ارشد شریف کی گاڑی کے اندر سے گولیاں چلائی گئیں تو انہیں گولی لگی تھی تاہم فرانزک تحقیقات میں یہ جھوٹ نکلا۔
کینیا کے ایک بااعتماد انٹیلی جنس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کینیا میں نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نے تفتیش میں سست روی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس میں اس کے اپنے ارکان شامل تھے اور جس ادارے کو اس طرح کی تحقیقات کرنے کی اجازت دی گئی تھی وہ آئی پی او اے تھا۔
تفتیش میں شامل اور معاملے کی اندرونی تفصیلات رکھنے والے افسر نے کہا کہ پولیس خود تحقیقات نہیں کر سکتی اور آئی پی او اے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نتائج جاری کرے۔ حالانکہ، پولیس کے پاس بھی اسی معاملے پر اپنی فائل ہے،’’
کینیا کے ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن مارٹن ماوینجینا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ کینیا میں نیشنل پولیس سروس اس معاملے کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
کینیا میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو پولیس افسران کو تحقیقات کے دوران ٹائم لائنز دیتا ہو۔ماوینجینا کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہے کہ شریف خاندان کو انصاف نہیں ملے گا کیونکہ انصاف دلانے میں مدد کرنے میں اچھی سیاسی قوت ارادی کا فقدان ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وقار اور خرم کے اہل خانہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی موٹر گاڑی، جس کا رجسٹریشن نمبر کے ڈی جی 200 ایم ہے، جس میں صحافی کو قتل کیا گیا تھا، انہیں واپس کی جائے۔
کینیا میں مقیم خاندان کے ایک رکن نے بتایا کہ ٹویوٹا لینڈ کروزر کو واپس لانے کا عمل پہلے ہی ایڈوانس مرحلے میں ہے۔
معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اہل خانہ نے کہا، ’کچھ ہی وقت میں گاڑی واپس کر دی جائے گی کیونکہ وہ پہلے ہی کیسریاں پولیس اسٹیشن کے انچارج افسروں سے رابطہ کر چکے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے‘۔
یہ بھی ثابت ہے کہ پولیس نے واقعے پرمتوازی تحقیقا کی تھیں لیکن نتائج کوعام نہیں کیا گیا ہے معاملے کے تفتیشی افسر کینیڈی کروائی کے مطابق ، ’پولیس کی تحقیقات فی الحال روک دی گئی ہیں‘۔
خرم اور وقار دونوں نے ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیاتاہم وہ کینیا میں ہی ہیں اور قتل کے بعد سے پاکستان واپس نہیں آئے ہیں۔
واضح رہے کہ کینیا کے صدر ڈاکٹر ولیم سموئی روٹو کی دعوت پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ آئندہ ماہ کینیا کا دورہ کریں گے۔ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور کابینہ کے دیگر ارکان اور مشیر بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔
20 اگست کو کینیا کے دارالحکومت پہنچنے والے ارشد شریف 23 اکتوبر کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گئے تھے تاہم ان کا ڈرائیور خرم احمد معجزانہ طورپربچ گیا تھا۔
عمران خان کے سابق معاون شہباز گل کے انٹرویو پر غداری کے الزامات سمیت متعدد مقدمات درج کیے جانے کے بعد 49 سالہ ارشد شریف اگست میں گرفتاری سے بچنے کے لیے پاکستان سے فرار ہوگئے تھے۔ کنیروبی پہنچنے کے وہ بزنس مین وقار احمد کے ریور سائیڈ پینٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے۔
قتل والے روز ارشد شرہ کو اموڈومپ کوینیا ٹریننگ کیمپ سے لے جایا جا رہا تھا، جو وقار کی ملکیت ہے اور وہ نیروبی کاؤنٹی جا رہے تھے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔