Aaj Logo

اپ ڈیٹ 29 اگست 2023 03:25pm

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، چیف جسٹس

جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی بل کیس میں دوبارہ فل کورٹ بنانے کی تجویز دے دی۔ جب کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ پر غالب آنا نہیں چاہتی، پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے عدلیہ میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی، یہ بل عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، جس نے آئین کی بنیاد ہلادی۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت شروع ہوگئی ہے، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ درخواست پر سماعت کررہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جون کے بعد مخدوم علی خان سے ملے ہیں، ہم نے درخواست گزار سمیت دیگر وکلا کی تحریری معروضات دیکھی ہیں، اس کیس میں بہت وقت لگ چکا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد مختلف درخواستیں دائر ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے متعلق گزشتہ عدالتی حکمنامے پڑھنا شروع کردیئے۔ اور خواجہ حارث اور مخدوم علی خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس نے دونوں وکلا کو دیکھ کر ریمارکس دیے کہ گڈ ٹو سی یو، امید ہے ایسا کہنے پر مجھے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی وکیل مخدوم خان کا مدعا ہم سمجھ چکے ہیں، مخدوم صاحب تو آج کل سب کے بارے میں ہی بڑے تنقیدی ہو گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں خامیاں ہیں، اٹارنی جنرل نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق یکم جون کو مطلع کیا، اٹارنی جنرل نے جون میں کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اسمبلی دیکھے گی، اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہیں معلوم کہ موجودہ حکومت کا اس قانون سے متعلق موقف کیا ہے، کیا معطل شدہ قانون کو اتنی اہمیت دی جائے کہ اس کی وجہ سے تمام کیسز التوا کا شکار ہوں، اٹارنی جنرل نے ایکٹ پر دوبارہ جائزے کیلئے دو مرتبہ وقت کیوں مانگا۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے جواب میں کہا کہ اٹارنی جنرل اپنی پوزیشن کے دفاع کیلئے یہاں موجود نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مبشر حسن کیس کے فیصلے میں وجوہات دی گئی ہیں، 8 ممبرز بینچ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں سن سکتے، اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو نئی درخواست دائر کر کے آجائیں، کیا سپریم کورٹ اپنا کام بند کر دے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ 8 رکنی بینچ نے قانون سازی پر حکم امتناع دے رکھا ہے، میں نے اپنے نوٹ میں 8 رکنی بینچ کے اسٹے آرڈر پر اعتراض نہیں کیا، میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا موجودہ کیس ایسے وقت میں سنا جا سکتا ہے جب قانون سازی پر حکم امتناع ہے، 8 رکنی بینچ نے ایکٹ سے متعلق طے کرنا ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی 48 سماعتیں ہو چکی ہیں، نہ صرف عوامی وقت بلکہ عوامی پیسہ بھی اس کیس پر بہت خرچ ہو چکا، عدالت نے دیکھنا ہو گا کہ نیب ترامیم کا اطلاق شروع سے تمام کیسز پر کیسے کر دیا گیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ حکم امتناع کی وجہ سے غیر موثر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ ریمارکس دیئے کہ کہہ چکا ہوں کہ سپریم کورٹ کے حکم امتناع سے مجھے سروکار نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ مخدوم علی خان نے مبشر حسن اور اعتزاز احسن کیس کے فیصلے پر انحصار کیا، موجودہ کیس میں حکومت وقت کی گزارش تھی کہ معاملے کو ملتوی کیا جائے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ قانون کو بہتر یا دوبارہ دیکھا جائے تو عدالت مداخلت نہیں کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ پر غالب آنا نہیں چاہتی، عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے عدلیہ میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، اس قانون کے ذریعے آئین کی بنیاد ہلا دی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر رائے نہیں دینا چاہتا، میرا خیال ہے کہ نیب ترامیم کیس کو آگے بڑھایا جائے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ فل کورٹ بنانے کی تجویز دے دی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نیب ترامیم کیس میں اب تک اڑتالیس سماعتیں کرچکی ہے، اور عدالت نے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے 26 سماعتوں پر دلائل مکمل کئے، جب کہوفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے 20 سماعتوں پر دلائل دیئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم حکومت کی نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ میں کیس کی گزشتہ سماعت 18 اگست 2023 کو ہوئی تھی، اور اس سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے مقدمے میں فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں اس کیس کو فل کورٹ کو سننا چاہیے، میری تجویز ہے کہ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی موجودگی میں یہ کیس پانچ ممبرز کو سننا چاہیے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوا، اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا، خصوصی عدالتوں سے متعلق کیس میں 22 جون کومیں نےنوٹ لکھا، اور اس کیس میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی، میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے۔

Read Comments