مسلمان بچے کو ہندو بچوں سے تھپڑ لگوانے والی خاتون ٹیچر نے واقعے کو اپنی معذروی کا سبب بناتے ہوئے بیان دیا ہے کہ اس نے ایسا اس لئے کیا کیوں کہ وہ معذور ہے، اور مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں۔
دو روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوگئی تھی جس میں بھارت میں ایک اسکول ٹیچر نے سات سالہ مسلمان طالب علم کو کلاس روم کے اندر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہم جماعتوں سے کہا کہ وہ اسے تھپڑ ماریں اورمذہب کی وجہ سے اسے اسکول سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کریں۔
پولیس کی جانب سے واقعہ کا مقدمہ درج کیا گیا تو ٹیچر نے مسلم طالب علم کے خلاف کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’میں معذور ہوں۔
ہندو خاتون ٹیچر ترپتا تیاگی نے پہلے اس واقعے کو ایک معمولی سا واقعہ قرار دیا تھا، لیکن اب اس معاملے پر ٹیچر نے بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ اسے مسلمان بچے کو ساتھی بچوں سے مار لگوانے پر کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہے، میں نے گاؤں کے بچوں کی خدمت کی ہے اور پورا گاؤں میرے ساتھ ہے۔
بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون ٹیچر کا کہنا تھا بچوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے اور ہم انہیں اسی طرح قابو کرتے ہیں، میں بچے کو ڈسپلن سکھا رہی تھی ااور ایسا کرنے کے لئے بچے کے چچا نے ہی کہا تھا، جب کہ بچے کے والد نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ میرے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔
مزید پڑھیں: ’خاتون ڈاکٹر پر چار انتہا پسند پل پڑے‘۔ بھارتی مسلمانوں پر مظالم کی داستانیں عالمی میڈیا تک پہنچ گئیں
واضح رہے کہ جمعہ کے روز سامنے آنے والی ویڈیو میں بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کے ایک اسکول کی ٹیچر ٹراپٹا تیاگی کو اسلاموفوبیا پر مبنی تبصرے کرنے کے علاوہ دیگر طلبا کو زور سے تھپڑ مارنے کی ترغیب دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مسلمان لڑکے سے نفرت آمیز سلوک کرنے پر اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ معصوم بچوں کے ذہنوں میں امتیازی سلوک کا زہر بونا، اسکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنا ، ایک استاد ملک کے لئے اس سے بدتر کچھ نہیں کرسکتا ہے۔
راہول گاندھی نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی مٹی کا تیل ہے جو بی جے پی نے پھیلایا ہے جس نے ہندوستان کے ہر کونے میں آگ لگا دی ہے۔
جمعہ کے روز سامنے آنے والی ویڈیو میں بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کے ایک اسکول کی ٹیچر ٹراپٹا تیاگی کو اسلاموفوبیا پر مبنی تبصرے کرنے کے علاوہ دیگر طلبا کو زور سے تھپڑ مارنے کی ترغیب دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پس منظر میں ایک مردانہ آواز ٹیچرسے متفق ہے۔
ویڈیو میں ٹیچر کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ، ’میں نے طے کیا ہے کہ تمام مسلم بچوں کو جانا چاہیے‘۔
اس پر ویڈیو میں مردانہ آواز سُنائی دیتی ہے کہ ، ’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، یہ تعلیم کو برباد کردیتا ہے‘۔ اس دوران متاثرہ بچہ کلاس کے سامنے کھڑا رورہا ہے اور خوفزدہ ہے۔
سات سالہ بچے محمد التمش کے والدین نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعرات کو مظفر نگر شہر سے 30 کلومیٹر دور کباپور گاؤں کے نیہا پبلک اسکول میں پیش آیا۔
اس کی ماں روبینہ نے بتایا کہ کل میرا بیٹا روتے ہوئے گھر آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ، ’وہ صدمے میں تھا، بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا‘۔
مزید پڑھیں: بھارت: پولیس کی زیرِحراست 2 بھارتی مسلمان میڈیا کے سامنے نامعلوم افراد کی گولیوں سے جاں بحق
والدہ کے مطابق ٹیچر نے یہ کہتے ہوئے اپنے اس اقدام کو صحیح قراردیا کہ کہ میرے بیٹے نے اپنے اسباق یاد نہیں کیے جبکہ میرا بیٹا اپنی پڑھائی میں اچھا ہے۔ وہ ٹیوشن لیتا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہاس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا۔ گیاایسا لگتا ہے کہ ٹیچر نفرت سے بھری ہوئی ہیں،۔
بھارت میں پولیس کی جانب سے سوشل میڈیا صارفین کو یہ ویڈیوشیئرنہ کرنے کی ہدایت کے بعد مختلف صارفین نے اسے اپنے اکاؤنٹس سے ہٹا دیا ہے۔
بچے کا والد ایک کسان ہے جس نے کہا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ ناروا سلوک ملک میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت کا نتیجہ ہے، جس کی عکاسی ویڈیو میں سنائی دینے والے استاد کے تبصروں سے ہوتی ہے۔
بچے کی والدہ روبینہ نے مزید کہا کہ ٹیچر کو مبینہ طور پر طلبا سے ان کے ہم جماعتوں کو تھپڑ مروانے کی عادت تھی۔ کچھ دن پہلے ہی ان کے خاندان کے ایک اور طالب علم کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا گیا تھا کیونکہ وہ اپناسبق یاد کرنے میں ناکام رہا تھا۔
ٹیچر کی جانب سے بچے کے والدین سے معافی مانگتے ہوئےاپنی غلطی تسلیم کرلی گئی ہے تاہم بچے کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ بیٹے کو دوسرے اسکول میں داخل کروائیں گے۔ یہ وہ ماحول نہیں جہاں ان کا بیٹا تعلیم حاصل کرے۔