لیبا نے اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات کی پاداش میں اپنی وزیرخارجہ کو معطل کرکے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خبروں کی تردید بھی کی ہے۔
لیبیا نے اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کے بعد اپنی وزیر خارجہ نجلہ منگوش کو ان کے عہدے سے معطل کر دیا ہے، اور اس ملاقات کے حوالے سے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
لیبین اور اسرائیلی وزارئے خارجہ کی ملاقات کی خبر ملتے ہی یروشلم (اسرائیلی وزارت خارجہ) نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔
جس کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا اسرائیل نے اس ملاقات پر جشن منانے کا اعلان نجلہ منگوش اور طرابلس سے مشاورت کے بغیر کیا تھا، یا پھر لیبیا کی حکومت نے اندرونی مخالفت کی وجہ سے اس معاملے پر اچانک یوٹرن لے لیا تھا۔
لیبیا کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اسرائیلی وزیرخارجہ سے کسی باضابطہ ملاقات کی تردید کی گئی ہے، اور صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات یا حالات معمول پر آنے کا انکار’ کا اعلان کیا ہے، اور اس بات پر زور دیا ہے کہ نجلہ منگوش کی اسرائیلی وزیرخارجہ سے اٹلی میں ایک حادثاتی ملاقات ہوئی تھی۔
دوسری جانب لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ نے وزیر خارجہ نجلہ منگوش کو اسرائیلی ہم منصب ”ایلی کوہن“ سے حالیہ ملاقات کے بعد ان کے عہدے سے معطل کر دیا، اور وزیر اعظم نے اپنے دفتر سے جاری ایک سرکاری دستاویز میں کہا ہے کہ انہوں نے اس ملاقات کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کردی ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کی جانب سے لیبا کے ان اقدامات اور بیانات پر فوری طور پر کوئی مؤقف یا تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
جب کہ اس سے قبل اسرائیلی وزارت نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ کوہن اور منگوش نے گزشتہ ہفتے اٹلی میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان پہلی سرکاری ملاقات میں لیبیا میں موجود یہودی ورثے کے مقامات کے تحفظ اور تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔
اسرائیلی وزارت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اجلاس میں اسرائیل کی انسانی امداد، زراعت، پانی کے انتظام اور دیگر موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ جب کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن نے اس ملاقات کو ”تاریخی“ اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تشکیل میں ”پہلا قدم“ قرار دیا تھا۔
تاہم لیبیا کی وزارت خارجہ نے اپنے اعلامیے میں واضح کیا ہے کہ روم (اٹلی) میں جو کچھ ہوا وہ اطالوی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے دوران غیر رسمی اور غیر طے شدہ غیر رسمی ملاقات تھی اور اس میں کوئی بات چیت، معاہدے یا مشاورت شامل نہیں تھی، بلکہ معطل کی گئی وزیر خارجہ نجلہ منگوش نے وہاں واضح اور غیر مبہم انداز میں فلسطین کے مسئلے پر لیبیا کے مؤقف کا اعادہ کیا تھا۔
لیبین وزارت خارجہ نے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ “عبرانی اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے مبینہ استحصال اور اس واقعے کو ملاقاتوں، بات چیت، یا اس طرح کے اجلاسوں کا انتظام یا منعقد کرنے پر غور کرنے کی ان کی کوششوں کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔
لیبیا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں ”اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے بیان کو مکمل طور پر مسترد“ کرتے ہوئے ”قومی استحکام کے لئے اپنے مکمل عزم“ کا اعادہ کیا ہے، اور یروشلم کو ”فلسطین کا ابدی دارالحکومت“ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات کی خبر سامنے آتے ہی لیبیا میں مظاہرے شروع ہوگئے اور لوگوں نے اسرائیلی پرچم جلایا۔
اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ “لیبیا کا تزویراتی محل وقوع اسرائیلی ریاست کو اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے بہت زیادہ اہمیت اور بے پناہ صلاحیت فراہم کرتا ہے، اس لئے میں نے لیبین وزیر خارجہ سے اس طرح کے تعلقات کے ساتھ ساتھ لیبیا میں موجود یہودیوں کے ورثے کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں بات کی، جس میں یہودی عبادت گاہوں اور یہودی قبرستانوں کی تزئین و آرائش بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے فلسطین پر قبضے سے قبل لیبیا میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو بعد میں وہاں سے چلے گئے تھے، اور اب یہ کہا جاتا ہے کہ لیبیا میں کوئی ایک بھی یہودی نہیں رہ رہا۔ اور 2021 میں لیبیا کے یہودی تارکین وطن کے ایک گروپ نے شکایت کی تھی کہ لیبیا میں ایک قدیم یہودی عبادت گاہ کو بغیر اجازت اسلامی مذہبی مرکز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
لیبیا میں 2011 میں بغاوت اور معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے بعد افراتفری پھیل گئی تھی، اور ملک تقسیم ہو گیا تھا، مشرق اور مغرب میں حریف انتظامیہ کو ملیشیا اور غیر ملکی حکومتوں کی حمایت حاصل تھی۔
اسرائیل اور لیبیا کے درمیان کبھی تعلقات نہیں رہے ہیں لیکن قذافی کے بیٹے سیف الاسلام اور اسرائیلی حکام کے درمیان طویل عرصے سے رابطوں کی اطلاعات ہیں، قذافی خود بھی متعدد مواقع پر اسرائیل سے رابطہ کر چکے ہیں،2021 میں لیبیا کے جنگجو خلیفہ حفتر کے بیٹے نے مبینہ طور پر اسرائیلی حکام کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے اسرائیلی حمایت کے بدلے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق حفتر نے اپنے والد کی جانب سے ایک پیغام لے کر آیا تھا جس میں لیبیا اور اسرائیل کے درمیان معمول پر لانے کا عمل قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جس طرح ابراہیم معاہدے میں یہودی ریاست اور متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان تعلقات قائم کیے گئے تھے۔
حفتر اس وقت توبرک میں قائم لیبین نیشنل آرمی کے کمانڈر ہیں جو طرابلس میں قائم حکومت کی حریف ہے۔
اس ملاقات کی خبروں کے جواب میں لیبیا کے صدارتی امیدوار سلیمان البیودی، جو اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت میں اس عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں، نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اور وزیر اعظم الدبیبہ پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ معاملات کو فروغ دے رہے ہیں، اور اسرائیل وہ آخری بھوسہ ہے جسے وہ ڈوبنے سے پہلے پکڑے ہوئے ہے۔
اقوام متحدہ کے لیبیا کے مندوب کے مطابق البیودی نے دبیبہ کو آئندہ انتخابات سے باہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتے متنبہ کیا تھا کہ لیبیا میں سیاسی تقسیم “ممالک کے لئے تشدد اور ٹوٹ پھوٹ کے خطرات سے بھری ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ طرابلس میں رواں ماہ 14 اور 15 اگست کو حریف ملیشیاؤں کے مابین شدید مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں مبینہ طور پر کم از کم 55 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔