برطانیہ میں قتل کی جانے والی 10 بچی سارہ شریف کے والد نے پاکستان میں گرفتاری دینے پر آمادگی ظاہر کردی۔
مقتول بچی کے دادا نے دعویٰ کیا ہے کہ سارہ کا مفرور باپ خود کو پاکستان میں پولیس کے حوالے کرنے پر رضامند ہے۔
سارہکی لاش 10 اگست کو اُس کے 41 سالہ والد عرفان شریف کی فون کال کے بعد پولیس نے سرے کے علاقے ووکنگ میں واقع کونسل ہاؤس سے برآمد کی تھی جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر مفرور والد کی تلاش شروع کی گئی تھی۔
عرفان، ان کی اہلیہ اور سارہ کی سوتیلی والدہ 29 سالہ بینش بتول اور عرفان کے 28 سالہ بھائی فیصل ملک سارہ کی لاش کی برآمدگی سے ایک روز قبل ہی برطانیہ سے فرار ہو کر پاکستان روانہ ہوچکے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سارہ کی پولش والدہ ما اپنے سابق شوہر پر زور دیا ہے کہ وہ ’ہار مان لیں‘ اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیں۔
جہلم میں واقع اپنے گھر سے دی مرر سے بات کرتے ہوئے سارہ کے دادا محمد شریف نے کہا، ’ جہاں تک مجھے معلوم ہے، میرا بیٹا اور اس کی بیوی ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں اور وہ جلد ہی ایسا کریں گے’۔
عرفان کے 68 سالہ والد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے برطانیہ سے فرارہوکرپاکستان پہنچنے والے بیٹے کو فرار کے بعد سے نہیں دیکھا اور وہ نہیں جانتے کہ سارہ کی موت کیسے ہوئی۔
بچی کے دادا کے مطابق، ’ میں چاہتا ہوں کہ وہ جلد ہتھیارڈال دیں کیونکہ پولیس چھاپوں اور تحقیقات کی وجہ سے میرا پورا خاندان شدید پریشانی میں ہے’۔
عرفان کے والد نے م زید کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کا بیٹا اور بہو کہاں لیکن ہے لیکن یہ ضررو کہہ سکتے ہیں کہ وہ جہلم میں نہیں ہیں۔
سارہ کی والدہ اولگا شریف نے بھی پاکستانی پولیس کی جانب سے تین مفرور ملزمان کی گرفتاری پر بات کی ہے۔
انہوں نے دی سن کو بتایا، ’جب تک انہیں گرفتارنہیں کیا جاتا، مجھے سلامتی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ یہ ایک بہت پریشان کن انتظارہے‘۔
گزشتہ روز میل آن سنڈے نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی پولیس عرفان شریف کے موبائل فون کے سم کارڈ کا سراغ لگا رہی ہے جو حال ہی میں کسی نے جہلم میں استعمال کی ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور عرفان شریف اہلیہ بینش بتول اور اسٹوڈنٹ ویزہ پر برطانیہ میں مقیم بھائی فیصل کے ساتھ فرار ہوئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے لیے پانچ ہزار پاؤنڈ کا یکطرفہ ٹکٹ خریدا۔ ان تینوں کے ساتھ پانچ بچے بھی تھے جن کی عمریں ایک سال سے 13 سال کے درمیان ہں۔
سرے پولیس کا کہنا ہے کہ عرفان شریف نے انہیں پاکستان سے 999 پر فون کیا تھا۔
یہ تینوں 10 اگست کو خفیہ طور پرعرفان شریف کے بھائی عمران سے ملنے گئے تھے، جس دن پولیس کو سرے میں سارہ کی لاش ملی تھی۔
عمران شریف نے بتایا کہ ان کے دو بھائیوں اور بھابھی نے بتایا کہ وہ کشمیر کے علاقے میرپور میں اپنے ایک رشتہ دار کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے پاکستان واپس آئے ہیں اور کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے۔
پولیس کا خیال ہے کہ عرفان، بتول اور فیصل جہلم میں روپوش ہوسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر انہیں رشتہ داروں کی مدد حاصل ہے۔
دوسری جانب سرے پولیس کا کہنا ہے کہ سارہ کی لاش کا پوسٹمارٹم کرانے سے موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی، تاہم یہ علم ہوا ہے کہ بچی کو متعدد چوٹیں’ آئیں جو ’ممکنہ طور پرطویل عرصے تشدد کا نتیجہ ہیں۔
بچی کی ماں کا کہنا ہے کہ، ’صرف ایک شخص جس سے میں جواب چاہتا ہوں وہ عرفان ہے۔ اس سے پوچھنا ہے کہ میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا ہے‘۔
گزشتہ ہفتے یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ سارہ والدین نے اس وقت اسکول سے نکلوا دیا تھا جب اسے حجاب پہننے کی وجہ سے دیگر طلبا نے ہراساں کیا تھا۔
دوسری جانب عرفان شریف کے رشتہ داروں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ تین شادیاں کر چکے ہیں، پہلی شادی پاکستان میں ایک کزن سے ہوئی تھی لیکن تقریبا 15 سال قبل اسٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیکر سارہ کی والدہ 36 سالہ پولینڈ کی شہری اولگا ڈومن سے شادی کر لی جس سے ان کا ایک بڑا بیٹا بھی تھا جس کی عمر 13 سال تھی۔
اولگا کو طلاق دینے کے بعد عرفان نے بینش سے شادی کی جس سے اُن کے تین بچے ہیں.