آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین ماہ نور کا اپنی اسکول کی پڑھائی کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ تین سے چار گھنٹے پڑھائی کرتی ہیں، انھیں پیانو بجانے کا بھی شوق ہے اور دوسروں کو اچھا کام کرتے دیکھتی ہیں تو ان سے سیکھتی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو میں ماہ نور چیمہ نے بتایا کہ انھیں شروع میں ہی یہ معلوم ہوگیا تھا کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ ہیں کیونکہ ان کے شوق عام لوگوں جیسے نہیں۔’مجھے کتابیں پڑھنے اور نت نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا جنون تھا جبکہ میرے ہم عمروں کی دلچسپی اور زندگی کے مقاصد مختلف تھے۔‘
ماہ نور کا کہنا کہنا تھا کہ شاید یہی وجہ تھی کہ اسکول میں پڑھنے کا ان کا تجربہ کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ ’جو سبق کلاس میں پڑھایا جاتا، میں وہ پہلے پڑھ چکی ہوتی تھی اور اس سے آگے کا جاننا چاہتی تھی۔‘
یاد رہے کہ برطانیہ میں او اور اے لیول کے نتائج جمعرات کو جاری ہوئے، ان امتحانات میں آئن اسٹائن سےزیادہ آئی کیو رکھنے والی برٹش پاکستانی طالبہ ماہ نور چیمہ نے 34 مضامین میں ریکارڈ کامیابی حاصل کرلی ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق 16 برس کی ماہ نور چیمہ نے برطانیہ سمیت دنیا بھرمیں نئی تاریخ رقم کردی۔ ماہ نور نے اولیول کے امتحان میں 10 مضامین اپنے اسکول سے اور 24 مضامین کے امتحانات پرائیوٹ امیدوار کے طور پر دیے۔ انہوں نے تمام میں اے اسٹار گریڈ حاصل کرلیے۔
کہا جارہا ہے کہ ماہ نور کا آئی کیو لیول البرٹ آئن اسٹائن سے بھی زیادہ ہے۔ مینسا آئی کیو ٹیسٹ میں ماہ نور کا اسکور 161 رہا ہے۔ آئن اسٹائن کبھی مینسا ٹیسٹ کا حصہ نہیں بنے مگر مانا جاتا ہے کہ ان کا اسکور بھی 160 ہوگا۔
ماہ نور ذہانت کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست ایک فیصد افراد میں سے ہیں۔ ماہ نور کے والدین عثمان چیمہ اور طیبہ چیمہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ یہ خاندان 2006 میں برطانیہ منتقل ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں :
آئن سٹائن سے زیادہ ذہین پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور 34مضامین میں کامیاب
آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین ماہ نورکا پسندیدہ پاکستانی سیاستدان کون؟
ماہ نور اپنی تعلیمی ذہانت کے ساتھ جڑے کچھ چیلنجز سے بھی واقف ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ماہ نور کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر طالبعلم پہلے سے ہی اس سبق سے واقف ہو تو استاد بھی اس کے لیے بہت زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ میرے پورے بچپن میں عام طور پر مجھے ایک کونے میں بٹھایا جاتا تھا اور ایک ورک شیٹ تھما دی جاتی تھی۔‘
’برطانیہ میں ایک سسٹم ہے جس کے تحت اسکول ورک شیٹ کو پیچیدگی کی بنا پر رینک کیا جاتا ہے۔ سب سے آسان درجہ براؤنز، پھر سلور، اس کے بعد گولڈ اور مشکل ترین درجہ پلاٹینم ورک شیٹ کا ہوتا ہے۔‘
ماہ نور ہ کہتی ہیں کہ اساتذہ نے ’مجھے پلاٹینم ورک شیٹ تک دے دی لیکن مجھے وہ بھی کبھی مشکل نہیں لگی۔ مجھے اپنی صلاحیتیں مکمل طور پر پیش کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا۔‘
ذہین طالبہ کہتی ہیں کہ وہ مصنفہ بننا چاہتی تھیں کیونکہ انھیں شروع سے مطالعے کا شوق تھا۔ مگر اپنے دادا اور دادی کو بیماری کی حالت میں دیکھ کر انھوں نے طب کے شعبے میں آنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی اسکول کی پڑھائی کے حوالے سے ماہ نور کا کہنا تھا کہ وہ اسکول کے دنوں میں تین سے چار گھنٹے پڑھائی پر صرف کرتی ہیں۔ ’مجھے پیانو بجانے کا ناصرف شوق ہے بلکہ دن بھر کی تھکن ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پیانو بجا کر دور کرتی ہوں۔‘
ماہ نور یہ اعتراف کرتی ہیں کہ اس سفر کے دوران انھیں فیملی کی مکمل حمایت حاصل رہی۔’انھوں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جہاں بھی چاہے خاندان میں یا باہر دوسروں کو اچھا کام کرتے دیکھیں تو ہم ان سے سیکھیں، نہ کہ ان سے حسد کریں۔‘