پولیس نے 10 سالہ فاطمہ کے مبینہ قتل میں زیر حراست 2 ڈاکٹرز، ایس ایچ او اور نائب قاصد کو شخصی ضمانت پر رہا کردیا تھا، تاہم آج نیوز پر خبر نشر ہونے کے بعد پولیس نے تمام ملزمان کو دوبارہ تحویل میں لے لیا ہے، تاہم 10 روز گزر جانے کے بعد بھی ملزمہ حنا شاہ کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ فاطمہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ حنا شاہ کی چچی نے اسے دھمکیاں دی ہیں۔
رانی پور میں 10 روز قبل با اثر پیر کے گھر جنسی زیادتی اور تشدد سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ فرڑو کے مبینہ قتل کیس میں آزاد کیے گئے ملزمان کو دوبارہ بلا لیا گیا ہے۔
آج نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے پولیس نے ایس ایچ او، ہیڈ محرر، دو ڈاکٹرز اور نائب قاصد کو دوبارہ تحویل میں لے لیا ہے، تاہم 10 روز گزرنے کے بعد بھی مرکزی ملزمہ حنا شاہ کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔
اس سے قبل فاطمہ کے مبینہ قتل میں گرفتار کئے گئے 5 افراد کو پولیس نے صرف شخصی ضمانت پر رہا کردیا تھا۔
پولیس کے مطابق تمام افراد نے ڈی آئی جی سکھر کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان کے بے گناہی ثابت ہوئی۔ رہا ہونے والوں میں سابق ایس ایچ او رانی پور امیر چانگ، ہیڈ محرر، ایم ایس رانی پور ڈاکٹر عبدالفتاح میمن، ڈاکٹر علی حسن اور نائب قاصد امتیاز میراسی شامل ہیں۔ تاہم پانچوں کو ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت بلایا جاسکتا ہے۔
انکشاف ہوا ہے کہ فاطمہ کے والدین کو ملزمہ حنا شاہ کی چچی دھمکیاں دینے لگی ہے۔
فاطمہ کی ماں اور کیس کی مدعی شبنم نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ اسے کہا گیا کہ ”حنا شاہ پر ہاتھ ہلکا رکھو ورنہ تمہاری خیر نہیں“۔
مدعی کو دھمکی دیتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ”اسد شاہ تک رہو حنا شاہ پر کوئی بات نہ کرو“۔
فاطمہ کی والدہ بھی انصاف کے حصول کیلئے ڈٹ گئی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ میں حنا شاہ کو کوئی رعایت نہیں دینے والی، اسد شاہ اور حنا شاہ کو سزا دلوا کر ہی دم لوں گی۔
پولیس نے 19 اگست کو ملزم اسد شاہ سے تفتیش کے بعد رانی پور اسپتال کا ڈسپنسر امتیاز کو گرفتار کیا تھا، اور پولیس ذرائع نے بتایا تھا کہ ڈسپنسر امتیاز میراسی فاطمہ کا گھر پرعلاج کرتا تھا۔
ایف آئی آر میں نامزد ملزم اسد شاہ نے پولیس کو بتایا کہ رانی پور سرکاری اسپتال کا ڈسپنسر علاج کیلئے آتا رہا تھا۔
مزید پڑھیں: رانی پور: بچی سے زیادتی کی تصدیق، انفارميشن لیک ہونے پر حویلی کے مکین فرار
دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے انکشاف کیا کہ امتیاز میراسی محکمہ ہیلتھ میں ڈسپنسر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے۔
متوفی 10 سالہ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ”آج نیوز“ نے حاصل کرلی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ لاش کے ڈی کمپوزیشن کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا، چہرے کے دائیں جانب کے حصے پر نیل کے نشانات تھے، جب کہ ناک اور کانوں سے خون ٹپک رہا تھا۔
مزید پڑھیں: رانی پور ملازمہ ہلاکت کیس: حویلی سے مزید 4 بچیاں بازیاب
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، بچی کی زبان اس کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی، اس کی پیشانی کی دائیں جانب چوٹ کے نشانات تھے، سینے کے دائیں جانب اوپر کی طرف بھی زخموں کے نشان تھے، اور ٹیشوز کے نیچے خون بھی جمع تھا۔
مزید پڑھیں: رانی پور ملازمہ ہلاکت کیس: حویلی سے بھاگنے والی ایک اور لڑکی کے انکشافات
رپورٹ میں بتایا گیا ہے بچی کمر کے درمیان 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم کے نشان تھے، کمر کے نچلی جانب بھی 6 سینٹی میٹر زخم کا نشان تھا، کمر کے بائیں جانب 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے لیکر بازو تک 10سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر بھی 6 سینٹی میٹر کے زخم کا نشان تھا۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کے بائیں ہاتھ میں سوراخ کرنے کے نشان بھی تھے، اور تمام زخم موت سے پہلے کے ہیں، بچی کے سر پر بھی چوٹیں ہیں، جب کہ رپورٹ کے مطابق بچی سے زیادتی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 16 اگست کو خیرپور میں واقعہ پیش آیا، جہاں بااثر پیر کی حویلی میں 10 سالہ بچی فاطمہ پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی، بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی میں بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔
مزید پڑھیں: فاطمہ کو ہمارے سامنے تشدد کر کے مارا گیا، ایک اور ملازمہ کا بیان سامنے آگیا
بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کردیا گیا، اور پولیس نے جاں بحق بچی کا میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کروائے بغیر ہی کیس داخل دفتر کردیا۔
ابتدا میں بچی کے والدین نے بیان دیا کہ ان کی بیٹی مرشد کے گھر میں کام کرتی تھی، اور غربت کی وجہ سے وہ خود اپنی بچی کو وہاں چھوڑ کر آئے تھے۔
متوفی فاطمہ کے والدین نے کہا کہ ہماری بچی 3 روز سے بیمار تھی اور بیماری کے باعث وہ فوت ہوگئی ہے۔
تاہم پولیس کی کارروائی کے بعد بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ بچی تشدد سے جاں بحق ہوئی ہے، بچی کے ورثاء نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتجاج بھی کیا۔