بجلی مہنگی ہونے اور اضافی بل پر مختلف شہروں میں عوام سڑکوں پر آچکے ہیں، نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی اعتراف کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے عوام مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایسے میں نگراں حکومت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے گریڈ 17 اور اوپر کے افسران کو مفت بجلی یونٹس کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی بلوں میں اضافہ پر نوٹس لیتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں بلوں پر زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت ہوگی۔
بجلی بلوں کیخلاف مظاہروں پر پاور ڈویژن نے بھی کنٹرول روم قائم کرنے کیلئے حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
بجلی کے زائد بلوں پر عوامی احتجاج شدت اختیار کرنے لگا ہے، حکومت نےعوامی ردعمل کی مانیٹرنگ کیلئے کنٹرول روم قائم کردیا۔
سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈسکوز کے گریڈ 17 اور اوپر کے افسران کو بجلی یونٹس کی سہولت ختم کر رہے ہیں، اس متعلق سمری جلد تیار کرلی جائے گی۔
سیکرٹری پاور کا کہنا تھا کہ پاور سسٹم بہت سی خرابیوں کا شکار ہے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی سیکریٹری نے بتایا واپڈا کے پرانے ملازمین علاوہ کسی محکمے میں بجلی کے بلوں میں رعایت نہیں دی جا رہی، اس وقت یہ رعایت ڈسکوز کے ملازمین کو مل رہی ہے، ایسا نہیں کہ تمام بوجھ بجلی کا بل ادا کرنے والوں پر ڈالا جا رہا ہے۔
راشد لنگڑیال کے مطابق بجلی چوری ہورہی ہے اور گردشی قرض 2300 ارب روپے ہے۔پاور سیکٹر کے حکام کے مطابق ملک میں 250 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے، نیٹ میٹرنگ بھی کیپیسٹی پیمنٹ میں اضافے کا ذریعہ ہے، نیٹ میٹرنگ سسٹم ختم کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ہے۔
وفاقی سیکریٹری پاور ڈویژن نے بتایا صارف کے لئے بجلی کے ٹیرف کا تعین تین طریقوں سے ہوتا ہے، بجلی کے ٹیرف کا تعین نیپرا کرتا ہے، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا تعین نئے پاور پلانٹس کے لئے ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بھی بجلی کی قیمتوں میں فرق آتا ہے۔ اگر ایک صارف مئی میں تین سو یونٹ استعمال کرتا ہے تو اس کا جولائی کے بل میں فرق لگ کر آتا ہے.
مزید پڑھیں
بجلی کمپنیوں کے افسران کے برائے نام بلز پر لوگ سوالات اٹھانےلگے
سیکریٹری پاور ڈویژن کا کہنا تھا مالی سال 2023ء میں ہم نے 195 روپے ڈالر ریٹ کے مطابق نرخ نوٹیفائی کئے، جبکہ ڈالر کی قیمت 284 روپے تک گئی، ہم نے آر ایل این جی کی قیمت 3183 ایم ایم بی ٹی یو روپے مقرر کرنے کا پلان بنایا، آر ایل این جی کی قیمت 3 ہزار سے 3800 کے درمیان رہی، اسی طرح درآمدی کوئلے کی قیمت بھی 51 ہزار سے 61 ہزار روپے فی میٹرک رہی، اگلے سال ہم نے 2 ٹریلین روپے صرف کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادائیگیاں کرنی ہیں۔
ان کا مذید کہنا تھا بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا فرق 400 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والوں پر لاگو ہوا، 63.5 فیصد ڈومیسٹک صارفین کے لئے ٹیرف میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت کم ازکم 300 یونٹ تک گھریلو صارفین کے ٹیکس کم کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اب بھی آئی ایم ایف سے بات کرکے 200 سے 300 یونٹ کے صارفین کے ٹیکس کم کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہے تو بجلی کے بلوں سے سیلز ٹیکس ختم کرسکتی ہے، مگر جو ہدف ہے وہ تو حاصل کرنا ہوگا، اگر بجلی کے بلوں سے سیلز ٹیکس ختم کریں گے تو کہاں سے جمع کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اگر پراپرٹی، زرعی آمدن، سروسز سیکٹر پر سیلز ٹیکس لگانے سے گریز کریں گے تو غریبوں پر ہی لگائیں گے جو کیا جارہا ہے۔