کراچی، راولپنڈی، ملتان اور جہلم سمیت ملک کے مخلتف شہروں میں مہنگی بجلی کی فراہمی اور ان کے بلز پر اضافی ٹیکس عائد کرنے خلاف شہریوں کا احتجاج جاری ہے۔ ایسے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کے برائے نام بلز پر شہریوں نے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
اسی ضمن میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور شہریوں کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے کل ہنگامی اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں وہ وزارت توانائی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لیں گے۔
ادھر شہریوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر واپڈا سمیت دیگر بجلی کمپنیوں کے ملازمین و افسران کے برائے نام بلز شیئر کرکے ان پر تنقید کی جا رہی ہے۔
سینئر صحافی حامد میر نے ایکس پر مبینہ واپڈا افسر کے گھر کا ایک بجلی کا بل شیئر کیا ہے، اپنے تبصرے میں حامد میر نے لکھا کہ یہ واپڈا کے ایک ملازم کا بل ہے جس نے 1200 یونٹ بجلی استعمال کی اور بل صرف 716 روپے آیا ہے۔
حامد میر نےتبصرے میں لکھا کہ ان واپڈا اور ڈسکو والوں کے بلوں کا بوجھ بھی مہنگائی کے مارے عوام اٹھا رہے ہیں۔
سینئر صحافی نے حکام سے سوال کیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران کو دی جانے والی سبسڈی کب بند ہو گی؟
اسی طرح ایکس پر ایک صارف نے بھی واپڈا ملازم کے گھر کا بجلی کا بل شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ واپڈا ملازم کے گھر کا بل 526 یونٹ استعمال کرنے پر 364 روپے آیا ہے، آخر یہ سہولت غریب عوام کو کب میسر ہوگی۔
ایک اور ایکس صارف نے مبینہ واپڈا ملازم کے گھر کا بل شیئر کیا جس پر انہوں نے کہا کہ پچھلے ماہ سوشل میڈیا پر ایک بل گردش کر رہا تھا، جو کہ کسی واپڈا ملازم کا تھا۔
صارف نے لکھا کہ مذکورہ بل میں 1219 یونٹس کا بل 614 روپے تھا، آج خیال آیا موصوف کا اس ماہ کا بل بھی آن لائن چیک کیا جائے، جب چیک کیا تو واپڈا ملازم نے اس ماہ 1547 یونٹ استعمال کیے اور الٹا واپڈا ان کا 308 روپے کا مقروض ہے۔