پہلے پیٹرول، پھر اشیائے ضروریہ اور اب بجلی کے بلوں میں آئے روز اضافہ کر کے ایک طرف نگراں حکومت نے عوام کو ریلیف نہ دینے کی ٹھانی ہوئی ہے تو دوسری جانب نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی بلوں میں اضافہ پر نوٹس لیتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے اور اضافی بل آنے پر مختلف شہروں میں عوام آج بھی سڑکوں پر آگئے۔ نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی اعتراف کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے عوام مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔
وزیراعظم نے وزارت بجلی اور تقسیم کارکمپنیوں سے بریفنگ کی ہدایت کی ہے، جبکہ کل ہونے والے اجلاس میں بلوں پر زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت ہوگی۔
کراچی میں کے الیکٹرک کے خلاف نشتر روڈ اور صدیق وہاب روڈ پر عوام سڑکوں پر آگئی، علاقہ مکینوں نے ٹائر جلا کر سڑک کو بلاک کردیا۔
ٹمبر مارکیٹ و اطراف کے علاقے میں چار دن سے بجلی غائب ہے جس سے مکین پریشان ہیں۔
احتجاج میں ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں نے بھی شرکت کی، تاجروں نے صدر ٹمبر مارکیٹ شرجیل گوپلانی کے خلاف مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کر دیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ شرجیل گوپلانی نے عوام کی بات کی تھی،ان کے خلاف مقدمات بےبنیاد ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل ٹمبر مارکیٹ میں تاجروں نے بجلی کاٹنے کیلئے آئے کے الیکٹرک ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
حافظ آباد میں بچوں نے بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف انوکھا احتجاج کرتے ہوئے کپڑے اُتار کر گلے میں بجلی کے بل لٹکا لیے اور ریلی بھی نکالی۔
بچوں نے سیاستدانوں، حکمرانوں، آفسر شاہی اور عوام کا فرضی ڈرامہ بھی پیش کیا۔
پشاور میں بھی شہری بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے تنگ آگئے، کہتے ہیں روز گار ہے نہیں تو بھاری بل کیسے ادا کریں گے۔ شہری کہتے ہیں بجلی آتی نہیں اور بل ڈبل ہوگئے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافے اور روزگار میں کمی کی صورت میں 200 یونٹ پر 10 ہزار اور 300 یونٹ پر 20 ہزار کا بل کیسے ادا کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی نے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف بھارہ کہو میں احتجاج کیا۔ مظاہرے کی قیادت نائب امیر جماعت اسلامی میاں اسلم اور ضلعی امیر نصر اللہ رند ھاوا نے کی۔
شرکا نے بجلی کے بلوں میں اضافے پر اٹھال چوک کو بند کیا۔ اس موقع پر میاں اسلم کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں اور بلوں میں شامل درجن بھر ٹیکسز کو فوری طور پر واپس لیا جائے، مہنگائی سے عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومتوں نے عوام کو سول نافرمانی کی تحریک شر وع کر نے پر مجبور کر دیا ہے، حکومت اشرافیہ کو مفت پیٹرول اور بجلی کی فراہمی بند کر ے، ہر گھر پر بجلی کے بل قیامت بن کر گر رہے ہیں۔
اس موقع پر نصر اللہ رند ھاوا کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی موجودہ مہنگائی، معاشی بدحالی کی ذمہ دار ہیں، کوئی مزدور ماہانہ 15ہزار کماتا ہے تو اس کا بل 20 ہزار آجاتا ہے۔
بجلی کے بلوں میں اضافے پر سول سوسائٹی کی جانب سے بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔
راولپنڈی میں بجلی اور پانی کے بلوں میں ٹیکس کیخلاف عوام آج پھر سڑکوں پر آگئی، احتجاج میں تاجربرادری ، ٹریڈ یونین اور شہری شامل ہوئے۔ حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔
جہانیاں میں بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے او میونسپل کمیٹی چوک میں مظاہرہ کیا گیا۔ تاجروں کی کثیر تعداد احتجاج میں شریک تھی۔
جہلم میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور بلوں میں اضافی ٹیکسز کے خلاف عوام سراپا احتجاج بن گئی۔ کچہری چوک میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
مظاہرے میں جماعت اسلامی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدہ داران و کارکنان، وکلاء، سماجی و کاروباری شخصیات اور شہریوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
مظاہرین نے حکومت سے بجلی کی قیمتیں کم کرنے اور اضافی ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں بجلی کے زائد بلوں نے نہ صرف شہریوں بلکہ میپکو حکام کی بھی مشکلات کو بڑھا دیا۔
چیف ایگزیکٹیو میپکو نے دفاتر اور تنصیبات کی حفاظت کے لیے 15 اضلاع کے ڈی پی اوز کو مراسلہ جاری کرنے کیساتھ ساتھ ملازمین کو سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیوں استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔
بجلی کے بلوں کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے عوام مشکل صورتحال سے دوچار ہیں، نگراں وزیراعظم نے اتوار کو بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا ہے۔ جس میں پاور سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا گیا ہے۔
اس موقع پر وفاقی سیکریٹری پاور ڈویژن نے بتایا صارف کے لئے بجلی کے ٹیرف کا تعین تین طریقوں سے ہوتا ہے، بجلی کے ٹیرف کا تعین نیپرا کرتا ہے، سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا تعین نئے پاور پلانٹس کے لئے ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بھی بجلی کی قیمتوں میں فرق آتا ہے۔ اگر ایک صارف مئی میں تین سو یونٹ استعمال کرتا ہے تو اس کا جولائی کے بل میں فرق لگ کر آتا ہے۔
وفاقی سیکریٹری پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ مالی سال 2023 میں ہم نے 195 روپے ڈالر ریٹ کے مطابق نرخ نوٹیفائی کئے جبکہ ڈالر کی قیمت 284 روپے تک گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آر ایل این جی کی قیمت 3183 ایم ایم بی ٹی یو روپے مقرر کرنے کا پلان بنایا جبکہ آر ایل این جی کی قیمت 3 ہزار سے 3800 کے درمیان رہی، اسی طرح درآمدی کوئلے کی قیمت بھی 51 ہزار سے 61 ہزار روپے فی میٹرک رہی، اگلے سال ہم نے 2 ٹریلین روپے صرف کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادائیگیاں کرنی ہیں۔
وفاقی سیکریٹری پاور ڈویژن کا مزید کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا فرق 400 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والوں پر لاگو ہوا، 63.5 فیصد ڈومیسٹک صارفین کے لئے ٹیرف میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
انھوں نے مزید بتایا واپڈا کے پرانے ملازمین علاوہ کسی محکمے میں بجلی کے بلوں میں رعایت نہیں دی جارہی ہے، اس وقت یہ رعایت ڈسکوز کے ملازمین کو مل رہی ہے، ایسا نہیں کہ تمام بوجھ بجلی کا بل ادا کرنے والوں پر ڈالا جا رہا ہے۔