Aaj Logo

شائع 24 اگست 2023 10:06pm

بٹگرام میں ریسکیو سے کس نے روکا، صاحب خان کا تفصیلی بیان آگیا

بٹگرام کی چئیرلفٹ میں پھنسے افراد کو اندھیرے میں ریسکیو کرنے والے صاحب خان نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ ادارے انہیں آپریشن کی اجازت نہیں دے رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں کو ہی ہم پر اعتماد نہیں تھا۔

منگل، 22 اگست کو خیبرپختونخواہ کے ضلع بٹگرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے پھنسنے والی چئیر لفٹ سے لوگوں کو 15 گھنٹے بعد ریسکیو کیا گیا۔

دریا کے اوپر بلندی پر پھنسی ہوئی چئیر لفٹ میں نویں جماعت کے 8 طلباء سوار تھے، جن میں سے دن بھر کی مشقت کے بعد صرف ایک کو ہیلی کاپٹر کے زریعے بچایا گیا، لیکن اندھیرا ہوتے ہی مقامی افراد باقیوں کو ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اندھیرے میں کئے گئے اس ریسکیو آپریشن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خوب افواہیں پھیلائی گئیں اور کہا گیا کہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو بچایا اور یہ بھی کہ اداروں نے مقامیوں کو آپریشن سے روک دیا تھا۔

لیکن بعد میں بچوں کو بچانے والے ریسکیوئرز محمد علی اور الیاس نے ان باتوں کی تردید کی اور کہا کہ فوج کے ان کی بھرپور مدد کی اور تعاون بھی کیا۔

محمد علی اور الیاس کو آج نگراں وزیراعظم نے ان کی بہادری کیلئے اعزازات سے بھی نوازا۔

اس ریسکیو مشن میں صاحب کان کا بھی ایک اہم کردار تھا۔ جنہوں نے چارپائی نما ڈولی بنائی اور اس سے بچوں کو بچایا گیا۔

صاحب خان نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ’میرے پاس سارا سامان موجود تھا، میری ٹیم ساتھ تھی لیکن ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کا عمل جاری تھا تو مقامی لوگوں اور والدین کو ہم پر اعتماد نہیں تھا، اس لیے ہمیں اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے ہیلی ریسکیو آپریشن کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے میں اس دوران اپنے ریسکیو آپریشن کی تیاری کرتا گیا۔ میں نے چارپائی نما ریسکیو چیئر لفٹ بنائی اور وہاں بیٹھا رہا۔ اتنے میں ہوا کا رخ تبدیل ہوگیا اور اندھیرا بھی چھا گیا۔ لیکن لوگ ہم پر بھروسہ نہیں کر پا رہے تھے۔‘

جب لوگ مایوس ہونے لگے تو صاحب خان نے ایک بار پھر مقامی لوگوں سے درخواست کی کہ انہیں ایک موقع دیا جائے وہ دو گھنٹوں میں تمام افراد کو ریسکیو کر لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’مسلسل اصرار کے بعد ہمیں اجازت ملی، میں نے اپنی ریسکیو چیئر لفٹ کیبل پر باندھ دی اور چیئر لفٹ میں پھنسے سات افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے آگے بڑھتا گیا۔‘

صاحب خان کے مطابق تب تک مغرب کی اذانیں ہو چکی تھیں اور اندھیرا چھا گیا تھا۔ ہر سو اندھیرا تھا، میں اپنے ریسکیو چیئر لفٹ کو لیے اندھیرے میں آگے بڑھتا گیا۔ میرا ہاتھ اب بھی دکھ رہے ہیں، میری کوشش تھی کہ مجھ سے جتنا جلدی ہو سکے میں ان افراد تک پہنچ جاؤں۔’ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گلگت، شانگلہ، کوہستان، سکردو، بٹگرام اور دیگر علاقوں میں ریسکیو آپریشن سرانجام دے چکے تھے۔

صاحب خان کے مطابق یہ آپریشن اُن کے لیے مشکل تو تھا ہی لیکن ساتھ ہی مقامی لوگوں کا اعتماد بحال کرنا بھی ایک چیلنج تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے بٹگرام میں اپنا پہلا آپریشن ہر صورت کامیاب بنانا تھا۔ کیونکہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ جب ہیلی کاپٹر کے ذریعے نہیں ہو رہا تو یہ دو تین بندے معمولی رسی اور چار پائی نما ریسکیو چیئر لفٹ سے کیا کارنامہ انجام دے دیں گے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’میں نے متاثرہ چیئر لفٹ سے ایک بچے کو بحفاظت اپنی ریسکیو چیئر لفٹ میں بٹھایا اور واپس روانہ ہوگیا۔ یہ بچہ رو رہا تھا اور بار بار بے ہوش ہو رہا تھا اس لیے ہم نے اسے سب سے پہلے ریسکیو کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘وہ جب ایک بچے کو ریسکیو کرنے میں کامیاب ہوگئے تو لوگوں کو بھی ان پر یقین آگیا اور ان کا ساتھ دینے لگے۔

دوسری بار جب صاحب خان اور ان کی ٹیم چیئر لفٹ تک پہنچی تو انہوں نے مزید تین بچوں کو ریسکیو کر لیا اور اس کے بعد اسکول ٹیچر اور دیگر افراد کو ریسکیو کیا گیا۔

آپریشن کی کامیابی کے بعد وہاں موجود لوگوں نے صاحب خان کی ٹیم کو نقد انعام بھی دیا اور انہیں خوب سراہا۔

Read Comments