برطانیہ میں سرے کے علاقے میں قتل ہونے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے پڑوسی نے دعویٰ کیا ہے کہ قتل ہونے سے کئی ماہ قبل بچی کو اسکول میں دیکھا گیا تھا اور اس کے چہرے پر زخم تھے۔
رواں ماہ 10 اگست کو برطانیہ میں سرے کے علاقے میں دس سالہ بچی سارہ شریف مردہ حالت میں پائی گئی تھی، بچی کا پاکستانی والد عرفان شریف برطانیہ سے فرار ہوکر پاکستان آیا اور یہاں سے بھی مفرور ہے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں قتل سارہ شریف کا والد، سوتیلی ماں اور بہن بھائی پاکستان میں روپوش
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق بچی ایک کے ایک پڑوسی نے دعویٰ کیا ہے کہ سارہ کو موت سے کئی ماہ قبل آخری بار اسکول میں دیکھا گیا تھا جہاں بچی کے چہرے پر زخم کے نشان تھے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں قتل سارہ شریف کے 2 چچا تفتیش کے بعد رہا
پڑوسی نے مزید بتایا کہ بچی کے جس دن دیکھا گیا تھا اس کے ایک روز بعد بچی کے اہل خانہ نے اسے اسکول سے نکال کر ہوم اسکول بھیج دیا تھا۔ اور کچھ ہی دن بعد پوری فیملی اس گھر میں منتقل ہو گیا جہاں سارہ کی زخموں سے بھری لاش ملی تھی۔
مزید پڑھیں: پولیس نے 48 سال بعد لڑکی کے اندھے قتل کا سُراغ لگالیا
بچی کے والد عرفان نے خود پاکستان پہنچ کر سرے پولیس کو فون کرکے سارہ کی حالت سے آگاہ کیا تھا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق 10 سالہ سارا شریف کی لاش جب گھر سے ملی تو وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا، ماں باپ میں طلاق ہو چکی تھی اور بچی اپنے والد اور سوتیلی ماں کے ساتھ رہ رہی تھی۔
جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملزم ملک عرفان نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اوگلا سے شادی کی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ سال 2017 میں عرفان نے اوگلا کو طلاق دے دی۔ طلاق کے بعد دونوں بچوں کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا۔
ملک عرفان اپنی دوسری بیوی بینش بتول اور بچوں کے ساتھ سرے کے علاقہ میں شفٹ ہوا جہاں 10گست 2023 کو بچی کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔
بچی کی موت کے دوسرے دن ہی ملک عرفان برطانیہ چھوڑ کر فیملی کے ہمراہ جہلم پہنچا اور کہیں روپوش ہوگیا۔ برطانوی اخبارات کے مطابق خاندان نے ٹکٹس 9 اگست کو ہی بک کر لیے تھے۔
بی بی سی کے مطابق برطانوی حکام کو عرفان، اس کا 28 سالہ بھائی فیصل ملک اور 29 سالہ بینش بتول مطلوب ہیں۔
جہلم میں ذرائع کا کہنا ہے کہ عرفان اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ساتھ آبائی علاقے میں پہنچے تھے تاہم اب وہ اپنی مقامی رہائش گاہ سے بھی غائب ہیں۔
عرفان کے بھائی عمران نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ اوگلا سے شادی کے بعد عرفان کا خاندان سے رابطہ ختم ہو چکا تھا۔ جب وہ جہلم آیا تو وہ اپنے بچوں کے بغیر ہی خاندان کے لوگوں سے ملنے آیا لیکن اس کے بعد سے اس کا کچھ پتہ نہیں۔
برطانوی اخبارات کا کہنا تھا کہ عرفان شریف 20 برس قبل برطانیہ آیا تھا اور وہ ٹیکسی چلاتا تھا۔ تاہم اخبارات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپریل میں اس نے ساڑھے پانچ لاکھ پاؤنڈ سے سرے میں گھر خریدا تھا۔ جہاں وہ مقیم ہوئے۔