Aaj Logo

شائع 24 اگست 2023 09:55am

چیئر لفٹ میں 15 گھنٹے کیسے گزرے، محصور رہنے والے بچوں کی کہانی ان کی زبانی

بٹگرام میں چیئرلفٹ کی کیبل ٹوٹنے سے گہری کھائی کے سیکڑوں میٹر اوپر پھنسنے والے 8 افراد کا کہنا ہے کہ انہیں بچنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔

طلباء میں سے ایک 16 سالہ عطااللہ بھی ہیں جو اپنا امتحانی نتیجہ لینے اسکول جارہے تھے۔

اس حادثے کے بعد عطاللہ کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کی کوئی امید نہیں تھی کہ وہ بچ جائیں گے۔

گاؤں الائی سے برطانوی اخبار گارڈین سے بات کرنے والے عطاء اللہ نے کہا کہ، ’میں ڈر گیا تھا ، تمام بچے چیخ رہے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو پکڑنا شروع کر دیا کیونکہ چیئرلفٹ لٹک رہی تھی۔ مجھے لگا کہ میں اب مر چکا ہوں‘۔

16 گھنٹے سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے اس ریسکیو آپریشن میں تیز ہواؤں اور دھیمی روشنی میں بچاؤ کی متعدد ناکام کوششیں بھی شامل رہیں۔

پہاڑی بٹگرام ضلع کے اس گاؤں میں ایک دشوار گزار علاقہ ہے، جہاں ایک تنگ سڑک ندی اور معاون ندیوں سے گزرتی ہے، جس کی وجہ سے بچاؤ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

ریسکیو کی ویڈیوز سوشل میڈیا پرتیزی سے وائرل ہوئیں۔ ایک ویڈیو میں مقامی شخص کیبل سے نیچے اترکر ایک بچے کو بچانے کے لیے اسے اپنے ساتھ باندھتا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے کے گرد بیلٹ بندھی ہے اور پاک فوج اسے ہیلی کاپٹر میں کھینچ رہی ہے۔

بقیہ مسافروں کو بستر کے فریم سے تیار کردہ چیئر لفٹ کا استعمال کرتے ہوئے بچایا گیا: مقامی ماہرین فوجیوں کے ساتھ بقیہ کیبل کو زپ لائن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے چیئرلفٹ میں گئے۔

بچوں کو بچانے کے بعد ہزاروں افراد آدھی رات تک امدادی مقام پر جمع رہے اور ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتے رہے۔

بدھ 23 اگست کو پولیس نے کیبل کار کے مالک گل زرین کو حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔

کیبل کار نے طلباء سے فی کس 10 روپے اور دیگر سے 20 روپے وصول کیے تھے۔

دی گارڈین نے پانچ بچوں سے بات کی جن میں بالغ اور چھٹے بچے کے والد عرفان اللہ شامل ہیں جنہیں اسپتال لے جایا گیا تھا اور اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہیں۔

سب سے چھوٹے بچے 13 سالہ ابرار احمد نے کہا کہ وہ کئی بار امید کھو چکے ہیں۔

ابرار کیا کہنا تھا کہ، ’میں نے سوچا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں اور میں پہلے مر جاؤں گا۔ مجھے کوئی امید نہیں تھی جب مجھے کوئی مدد نظر نہیں آئی اور شام 4 بجے تک کوشش ناکام رہی لیکن ب فوج نے عرفان اللہ کو بچایا تو میں پرامید ہو گیا اور جب اندھیرا ہو گیا اور فوج نے ہیلی آپریشن روک دیا تو میں نے دوبارہ امید کھو دی۔ مجھے اس وقت امید ملی جب ایک مقامی شخص نے دوسرے لڑکے کو بچایا‘۔

عطاء اللہ نے بتایا کہ گروپ صبح ساڑھے سات بجے اسکول کے لیے روانہ ہوا لیکن جلد ہی کیبل کار ٹوٹ گئی۔چار گھنٹے بعد پہلا فوجی ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پر منڈلاتا رہا اور اس نے اپنی پوری کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔ دوسرا ہیلی بھی بغیر کسی کامیابی کے واپس گیا اور اس بات نے مجھے بہت پریشان کیا کہ ہیلی کاپٹرہمیں بچانے میں کامیاب نہیں ہورہے اور ہم جلد ہی مر جائیں گے۔

15 سالہ رضوان اللہ نے کہا، ’میں اپنی آنکھوں کے سامنے موت دیکھ سکتا تھا۔ ہوا کا دباؤ بہت تیز تھا اور کیبل کار لٹک رہی تھی اور اس میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایک طرف سے کوئی دروازہ نہیں تھا۔ سب رو رہے تھے‘۔

بچوں نے بتایا کہ کیبل کار میں ان کے ساتھ ایک مقامی شخص گل فراز تھا جس نے انہیں بتایا کہ وہ بچ جائیں گے۔

24 سالہ گلفراز کے مطابق، ’سچ کہوں تو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں بچوں کو پرسکون کر رہا تھا اور ان سے کہہ رہا تھا کہ ہم زندہ رہیں گے، مجھے کوئی موقع نظر نہیں آرہا تھا کہ ہم بچ پائیں گے، یہ ایک افراتفری کی صورتحال تھی۔ لیکن میں راستے تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا اور میرے فون نے ہمیں بچا لیا‘۔

گلفراز نے کیبل کار کے واقعے کے بارے میں اپنے بڑے بھائی، مقامی علماء اور دوستوں کو مطلع کرتے ہوئے کئی فون کالز کیں۔

انہوں نے بتایا کہ، ’ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک کیبل کار میں موبائل سروس نہیں تھی۔ جیسے موبائل نیٹ ورکس دیکھے، میں نے ہراس شخص کو فون کیا جسے میں جانتا تھا لیکن صبح سے میں نے اپنا فون بند کر دیا ہے کیونکہ مجھے لامحدود کالز مل رہی ہیں‘۔

Read Comments