افغانستان کی عبوری طالبان حکموت نے متعدد خواتین طالبات کو اسکالر شپ پر تعلیم کے حصول لے لیے متحدہ عرب امارات جانے سے روک دیا۔
الحبتور گروپ کے چیئرمین خلف احمد الحبتور نے بدھ کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ’میں اُس مایوسی کا اظہار کرنے سے قاصر ہوں جو میں اب محسوس کر رہا ہوں، کیونکہ افغان طالبات جنہیں میں نے تعلیمی وظیفہ فراہم کیا تھا… بدقسمتی سے دبئی ایئرپورٹ تک نہیں پہنچ سکیں‘۔
خلف احمد الحبتور نے کہا کہ انہوں نے دبئی یونیورسٹی کے تعاون سے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا تھا، لیکن ’یونیورسٹی میں داخلے، رہائش، نقل و حمل، ہیلتھ انشورنس، اور خواتین طالبات کے لیے انتہائی آرام اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جامع خدمات حاصل کرنے کے باوجود، ہماری امنگوں کو کچل دیا گیا۔‘
اگرچہ طالبان نے 1990 کی دہائی کے اپنے سابقہ دورِ اقتدار کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کا وعدہ کیا تھا، لیکن انہوں نے اگست 2021 میں افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سخت اقدامات نافذ کیے ہیں۔
طالبان نے خواتین کو عوامی زندگی اور کام کے بیشتر شعبوں میں حصہ لینے سے روک دیا ہے اور میڈیا کی آزادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔
مزید پڑھیں
بچیوں کے اسکول کھول دو، افغان خاتون رہنما طالبان کے پاس پہنچگئیں
دو برس بعد دوحہ میں طالبان اور امریکہ پھر مذاکرات کیلئے بیٹھگئے
افغان طالبان کی حکومت واٹس ایپ پر چلتی ہے، امریکی اخبار کادعویٰ
انہوں نے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کر دی ہے، اور افغان خواتین کو مقامی اور غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔
طالبان کے ان اقدامات نے ایک شدید بین الاقوامی ہنگامہ برپا کر دیا ہے، ان اقدامات نے ایسے وقت میں ملک کی تنہائی کو بڑھایا ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور انسانی بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔
طالبان کی جانب سے فوری طور خلف الحبتور کے بیان پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم الحبتور نے تمام متعلقہ فریقوں پر زور دیا کہ وہ جدوجہد کرنے والے طلباء کی فوری مدد کریں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک بڑا سانحہ ہے اور انسانیت، تعلیم، مساوات اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ایک دھچکا ہے۔‘