سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کے فیصلے کو بادی النظرمیں غلط قرار دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بادی النظر میں ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جودرست نہیں تھا، فیصلے میں خامیاں ہیں، ابھی معاملے میں مداخلت نہیں کررہے، کل ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے توشہ خانہ کیس فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی اپیلوں پر آج ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
توشہ خانہ کیس کیخلاف عمران خان کی اپیلیں سماعت کیلئے مقرر، سپریم کورٹکا بینچ تشکیل
سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی اپیل نمٹادی
توشہ خانہ فوجداری کیس: عمران خان 5 سال کیلئے نااہل قرار، 3 سال قید کیسزا
تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے بظاہر ہائی کورٹ کی ہدایات کی حکم عدولی کی، چیئرمین پی ٹی آئی 5 اگست سے جیل میں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ اپیلوں پر پہلے فیصلہ کرے۔
حکم نامہ مزید بتایا گیا کہ سزا معطلی کی اپیل ہائیکورٹ میں کل سماعت کے لیے مقرر ہے، ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا مناسب ہے، کیس کی سماعت کل دن 2 بجے ہوگی۔
عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن اسلام آباد اوراسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک فیصلے کیخلاف دائراپیل کی سماعت کی۔
تین رکنی بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اورجسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
سماعت کے آغازمیں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغازکیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے 3 درخواستیں ہیں، جس پرعمران خان کے وکیل نے وضاحت کی کہ درخواست گزارنے مختلف فیصلوں کیخلاف اپیلیں دائرکررکھی ہیں۔
الیکشن کمیشن میں عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گوشواروں کی تفصیلات سے متعلق دلائل دینے والے لطیف کھوسہ نے کہا کہ عمران خان میانوالی سے 2018 میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے، ان پرکاغذاتِ نامزدگی میں اپنے اوراہلیہ کے اثاثے چھپانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ ہر سال 31 دسمبر تک اپنے، اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کا پابند ہے۔ چھ ایم این ایز نے عمران خان کیخلاف اسپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھیجا جس میں اثاثہ جات سے متعلق جھوٹا ڈیکلیئریشن جمع کرانے کا الزام عائد کیا گیا۔اسپیکر نے یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا۔
عمران خان کے وکیل نے جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کے استفسار پرالیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 اور 4 پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن 120 دن میں ہی کاروائی کرسکتا ہے۔
جسٹس مظاہرنقوی نے استفسار کیا کہ کیا ایک رُکن دوسرے کیخلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے؟۔
لطیف کھوسہ نے جواب میں کہا کہ کوئی رکن ریفرنس نہیں بھیج سکتا،الیکشن کمیش خود بھی ایک مقررہ وقت میں ہی کاروائی کرسکتا ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی کے استفسار پرلطیف کھوسہ نے ضابطہ فوجداری کا سیکشن 137 اور سب سیکشن 4 پڑھ کرسنایا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسارکیاکہ اگر آپ کی اپیل منظورہوجاتی ہے تو ٹرائل کورٹ تو فیصلہ سنا چکی ہے، پھر کیس کہاں جائے گا۔ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔
جسٹس مظاہرنقوی نےریمارکس دیے کہ آپ نے شکایت کی قانونی حیثت کو چینلج ہی نہیں کیا تو پھر کیا کہہ رہے ہیں؟۔ جواب میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ، ’ہم نے شکایت کی قانونی حیشت کو ہی چیلنج کیا ہے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ آپکا کیس ٹرائل کورٹ میں زیرالتوا نہیں، کیس سُن کر اب ہم کہاں بھیجیں گے۔
اس پرلطیف کھوسہ بولے کہ ، ’سپریم کورٹ اس تمام مشق کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ فیصلے کے دن خواجہ حارث کے منشی کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا۔ انصاف تک رسائی روکی جاتی رہی‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ، آپ نے درخواست کے ساتھ حقائق کی سمری لگائی، کیا آپ کہتے ہیں کہ شکایت ایڈیشنل سیشن کے بجائے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیئے تھی؟
اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے، موجودہ کیس یہ نہیں ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کیخلاف ریفرنس بھیجا جا سکتا تھا یا نہیں، آپ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف آئے ہیں، توشہ خانہ مرکزی کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے کیا اس کو چیلنج کیا گیا؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا، ’دائرہ اختیار کا معاملہ آپ نے چیلنج کیا تھا، اور خود ہی کہہ رہے ہیں کہ دوسری عدالت میں کیس زیرالتوا ہے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پھر لطیف کھوسہ سے استفسار کیا، کیا سپریم کورٹ کے یہ کیس سننے سے مرکزی کیس کا فیصلہ متاثر نہیں ہوگا، آپکی اپیل منظورہوجاتی ہے تو ٹرائل کورٹ تو فیصلہ سنا چکی، پھر یہ کیس کہاں جائے گا۔’
لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کوگھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پرلانی ہونگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’ہرمرتبہ غلط بنیاد پربنائی گئی عمارت نہیں گرسکتی‘۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا، ’الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کو نااہل کرکے شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیاجس کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا اور اس نے قراردیا کہ تاحکم ثانی کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی‘۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہورہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائرکی تھی؟۔ جواب میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کریں گے‘۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ درخواست وہیں دائرہوسکتی ہےجس عدالت کی توہین ہوئی۔
لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے فوجداری شکایت درج کرائی، الیکشن کمیشن نے انہیں مقدمہ درج کرانے کی اتھارٹی نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ سیشن عدالت میں آپ کا موقف کیا ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ، ’ہمارا موقف ہے توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپکے مطابق اس معاملے پر ابتدائی کارروائی مجسٹریٹ کرکے ٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے’۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ، ’قانون میں درج ہے مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لیکر اسے سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے؟‘۔
وکیل لطیف کھوسہ جواب دیا، ’اس کا مطلب ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں؟ قتل ہوا ہی نہ ہو تو دفعہ 302 کی ایف آئی آردرج نہیں کی جاسکتی‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا اختیارات کیخلاف اعتراضات اٹھائے جاسکتے ہیں، آپ اختیاراتِ سماعت کا معاملہ ہائیکورٹ لے کر گئے وہاں کیا ہوا؟
جسٹس مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ ہر بات پر ہائیکورٹ پراعتراض اُٹھاتے ہیں، فیصلوں پر اعتراض اٹھائیں ہائیکورٹ پر نہیں، آپکو ہائیکورٹ کے فیصلے پسند نہیں آئے آپ ہمارے پاس آ گئے، عدالت پر اعتراض نہ اٹھائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ، یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے، ادارے ایسے ہی کام کرسکتے ہیں۔
جسٹس مظاہرعلی نقوی نے استفسارکیا کہ اس کیس میں سزاکتنی ہوئی۔ جواب میں لطیف کھوسہ نے بتایا ، 3 سال، یہ 120 دن بنتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے استفسارکیا کہ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ دینے کے کتنے دن بعد شکایت بھیجی۔ اس پر عمران خان ک وکیل نے کہا کہ قانون میں دنوں کا تعین اثاثوں کے تفصیل جمع کرانے سے لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیےکہ، ’342 ارکان قومی اسمبلی، صوبائی ممبران سب کی تفصیل الیکشن کمیشن 120 دن میں کیسے دیکھ سکتا ہے؟ 120 دن کہاں سے شروع ہوں گے یہ دیکھنے کے لیے مائنڈ اپلائی کرنا ہوگا‘۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف کرپٹ پریکٹس ثابت ہوئی پھر شکایت بھیجی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا، ’اگر ٹرائل کورٹ یا اپیلٹ کورٹ نے کسی معاملے کو نہیں دیکھا تو ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں، متعلقہ کورٹ نے کسی معاملے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اپیل میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلاوجہ ایک سے دوسرے جج کوکیس منتقل کرنے سے عدالتیں ڈی مورال ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ اپنےہرایک جج کے دفاع کے لیے بیٹھی ہے۔
لطیف کھوسہ نے اس موقع پر کہا کہ، ’جج صاحب ہم نے آپ کیلئے خون دیا ہے‘،
جواب میں چیف جسٹس نے کہا، ’آپ نے ہمارا ساتھ دیا آئین کی خاطر، ہم گواہ ہیں‘۔ جسٹس جمال مندو خیل نے بھی واضح کیا کہ ، ’آپ نے آئین کیلئے جدوجہد کی کسی جج کے لیے نہیں‘۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ جذباتی ہونے کے بجائے قانون کے مطابق دلائل دیں، بہتر نہیں ہوگا کہ ہائیکورٹ مائنڈ اپلائی کرکے فیصلہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ، ’بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں‘۔ غلطیوں کے باوجود آج ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اگر کل ہائیکورٹ میں کچھ نہ ہوا تو کل دن ایک بجے سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس ابھی فورمز موجود ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا، ’کیا آپ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم چیئرمین پی ٹی آئی کو بری کردیں؟ طرزعمل تو ایسا ہی لگ رہا ہے‘۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے اگر ملزم خود کوئی گواہ پیش نہیں کرتا تو عدالت کیسے طلب کرسکتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو گواہان پیش کرنے کیلئے وقت نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے گواہان کو غیرمتعلقہ قراردیا۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’بادی النظر میں ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جودرست نہیں تھا، فیصلے میں بادی میں بادی النظر میں خامیاں ہیں، ابھی معاملے میں مداخلت نہیں کررہے، کل ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں، ہم پرسوں کیس سنیں گے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے مواقع دیے گئے ؟ تین دفعہ کیس کال کر کے ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزا سنا کرجیل بھیج دیا،اُنہیں سنا ہی نہیں گیا۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ، ’بہترہوگا پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کرے۔ ہائیکورٹ نے 4 اگست کے فیصلے میں توشہ خانہ کیس سے متعلق سوالات کی فہرست بھیجی تھی، کیا ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات پر فیصلہ کیا، درخواست گزار کی شکایت ہے کہ ہائیکورٹ نے فیصلہ کرنے کے بجائے کیس واپس ٹرائل کورٹ بھیج دیا۔ کیس یہ ہے کہ توشہ خانہ کیس غلط عدالت میں بھیجا گیا‘۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کا، ’ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنانے سے قبل ملزم کو تین بار موقع دیا تھا، عدم حاضری پر ٹرائل کورٹ نے کیس کا فیصلہ کیا۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ، ’ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیسے کر دیا؟ ملک کی کسی بھی عدالت میں کرمنل کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر فیصلہ نہیں ہوتا، توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی اتنی جلدی کیاتھی؟‘۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو کل اپیل سننے کی ہدایت کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بجے دوبارہ کیس سنیں گے۔ آج ہونے والی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 190 (2) کے تحت دائر درخواست پر شروع کی گئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ انہوں نے رقم کے حصول کیلئے سرکاری تحائف مارکیٹ میں فروخت کیے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا موقف ہے کہ وہ توشہ خانہ سے تحائف اپنے پاس رکھنے کے حقدار تھے جہاں سرکاری اہلکاروں کو ملنے والے تمام تحائف مقررہ طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد گھر لے جانے سے پہلے جمع کرائے جاتے ہیں لیکن منافع کمانے کے لیے انہیں مارکیٹ میں فروخت نہیں کیا جاتا۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ سرکاری تحائف کو اپنے پاس رکھنا یا انہیں بازار میں فروخت کرنا جرم نہیں ہے۔