اداکارہ ماہرہ خان کا کہنا ہے کہ ہمیں بچوں کی محفوظ کرنے کے بجائے انہیں بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔
سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنازیشن کی جانب سے چالڈ ٹریفکنگ اور چائلڈ لیبر کے موضوع پر پریس کانفرس کا انعقاد کیا گیا جہاں معروف اداکارہ ماہرہ خان نے گفتگو میں کہا کہ ایسی بہت سی نوجوان لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ یہ گھناؤنا سلوک ہوا اور یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر آج ہم نے موقف اختیار نہیں کیا اور ان مجرموں کو سخت سے سخت سزا نہ دی تو مستقبل میں ان گنت دیگر نوجوان لڑکیاں بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوں گی۔
ماہرہ خان کا مطالبہ تھا کہ فاطمہ اور رضوانہ کے معاملے مزید رپورٹنگ ہونے کی ضرورت ہے جب بھی کوئی واقعہ ہوتا تو اس کی خبریں چلتی ہیں لیکن پھر مجرم جیل میں چلے جاتے ہیں اور ہم چپ ہوجاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بچوں کو محفوظ کرنے کے بجائے انہیں بااختیار بنانے کی ضرورت ہے، انہیں تعلیم دینے اور ہنر سکھانے کی ضرورت ہے کہ تاکہ وہ کسی خود کمائیں بجائے اسکے کہ وہ کسی شیطان نما شخص کے گھر کام کریں ۔
اس موقع پر پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کا کہنا تھا کہ جو قوم اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ ترقی نہیں کر سکتی۔
پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ نادیہ جمعیل کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جب تک مجرم کو سزا نہیں ملتی ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر بڑے اثر و رسوخ، طاقت اور یہاں تک کہ سیاسی پشت پناہی کے حامل ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کے لیے کسی بھی قسم کی سزا سے بچنا، آسانی سے اپنے جرائم سے بچنا ناقابل یقین حد تک آسان ہو جاتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ مجرمان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہیں قانون کی مکمل حد تک سزا دی جائے گی۔
فریحہ الطاف کہتی ہیں کہ ایک ملک اس وقت تک کیسے باوقار ہوسکتا ہے جب تک اس کے بچوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے ۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ جب بھی کوئی فاطمہ یا رضوانہ جیسا واقعہ تو باہر کے ملکوں وہ فرنٹ پر آتا ہے لیکن ہمارے ملک ایسے واقعات کو زیادہ کوریج نہیں دی جاتی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم رضوانہ کے کیس سے دیکھ سکتے ہیں کہ جن لوگوں کو ہم پڑھے لکھے سمجھتے ہیں وہ بھی بدترین مجرموں میں شمار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم رضوانہ اور فاطمہ کیس کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات سمیت ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
یاد رہے کہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی رضوانہ کو 24 جولائی کو تشویش ناک حالت میں لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اسلام آباد کے ایک سول جج کی اہلیہ نے مبینہ طور پر کمسن ملازمہ پر طلائی زیورات چوری کرنے کا الزام لگا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کی ہلاکت کے کیس میں 10 سالہ فاطمہ کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں فاطمہ پر قبل از مرگ تشدد اور ریپ کی تصدیق کی تھی۔