پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئیر رہنما حامد خان کا بلز پر دستخط کی تردید کے حوالے سے کہنا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تاخیر سے ٹویٹ کیا، صدرِ مملکت کو بہت پہلے بل واپس کر دینا چاہئے تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ صدرِ مملکت نے معاملہ اپنے عملے پر چھوڑ دیا تھا، انہوں نے قانون پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
حامد خان کے مطابق قانون صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد نافذ ہوتا ہے اور دونوں بلز پر صدرِ مملکت کے دستخط ہی نہیں ہیں، اس لئے دونوں بلز قانون نہیں بنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے بعد صدر منظوری نہ دے تو بل ختم ہوجاتا ہے، نئی پارلیمنٹ آئے گی تو بل پر دوبارہ غور ہوسکے گا
سینئیر پی ٹی آئی رہنما کے مطابق صدرِ مملکت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بلز مسترد کر دیے تھے، صدر مملکت نے اپنے عملے کو بل واپس بھیجنے کا کہا تھا۔
صدر مملکت کے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کی وضاحت پر انہوں نے کہا کہ سیکرٹری سے زیادہ صدر مملکت کا مؤقف اہم ہے، صدر کے مؤقف کے بعد سیکرٹری کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
بلز کے تحت گرفتاریوں اور ٹرائل کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ ہونے پر ہی کسی کا ٹرائل ہوسکے گا، یہ معاملہ آخر میں سپریم کورٹ میں ہی جانا ہے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئیر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صدر مملکت ٹویٹ نہ کرتے تو بہتر ہوتا، انہیں معاملہ قانونی طریقے سے اٹھانا چاہئے تھا۔
مزید پڑھیں
صدر علوی کے دعوے پر ردعمل کے بعد وزارت قانون کا ٹوئٹر اکاؤنٹمعطل
صدر نے بلز واپس نہیں بھجوائے، 10 دن میں خودبخود قانون بن گئے، نگراںوزیر قانون
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صدر مملکت کسی پارٹی کی نمائندگی نہیں کر رہے، دیکھنا ہوگا کہ صدر مملکت ردعمل نہ دیں تو کیا ہوگا، بل پر صدر کے ردعمل نہ دینے پر آئین بھی خاموش ہے، صدر مملکت اپنے عملے کو تبدیل کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی نئے صدر کے آنے تک عہدے پر رہ سکتے ہیں، صدر مملکت کی مدت میں توسیع کی نظیر نہیں ملتی۔
ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر بحث نہیں ہوئی، بہت سے بلز عجلت میں پاس کرائے گئے، بلز کی منظوری کیلئے کوئی دباؤ یا مخالفت نظر نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ عجلت میں قانون سازی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات 90 دن میں نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ ساڑھے 4 ماہ درکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حلقوں میں وسیع تبدیلیاں آئیں گی، اصل مسئلہ حلقہ بندیوں کا ہے، دسمبر میں الیکشن ہوئے تو 35 نشستیں سردی سے متاثر ہوں گی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پرانی مردم شماری پر الیکشن کرنا بھی درست نہیں تھا، 5 سال بعد نئی مردم شماری کرانے کا وقت آجائے گا، مردم شماری کی تاخیر سے منظوری میں بدنیتی نہیں ہے، پی ٹی آئی دورمیں نئی مردم شماری پر الیکشن کا فیصلہ ہوا تھا۔
مزید پڑھیں
ائر کولر، فروٹ، شہد، پرفیوم اور بہت کچھ: جیل میں عمران خان کیلئےسہولتیں منظرعام پر
اٹک جیل میں عمران خان کے باتھ روم کے اوپر بھی کیمرے لگے ہیں،جج
عمران خان اور جیل اہلکار کے درمیان مبینہ کوڈ ورڈ گفتگو کادعویٰ
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو الیکشن کے قریب واپس آنا چاہئے، ووٹ کوعزت دو کا بیانیہ اپنا جگہ قائم ہے، شہباز شریف بتائیں گے کہ الیکشن مہم میں بیانیہ کیا ہوگا، مہنگائی کا بوجھ ن لیگ کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اٹک جیل میں عمران خان کے سیل کے باہر کیمروں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیرک میں کیمرے لگانا زیب نہیں دیتا، بیرک میں سیکیورٹی دینی ہوتی ہے، جیل مینول کے مطابق سہولیات دی جاتی ہیں، سہولیات کیلئے عدالت میں درخواست دائر کی جاتی ہے۔