سپریم کورٹ نے پاناما جے آئی ٹی والیم 10 کھولنے سے متعلق براڈ شیٹ کمپنی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پرنمٹا دی، اور مریم نواز کی ضمانت منسوخی سے متعلق نیب کی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔
والیم 10 تک رسائی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے کیونکہ اس میں تو ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا، آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا، وہاں معاملہ نمٹ چُکا اب تو آپ کی درخواست غیر موثر ہو چُکی۔
براڈ شیٹ کی جانب سے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ معاملہ ابھی غیر مؤثر نہیں ہوا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں ثالثی کورٹ میں کارروائی کا کیا بنا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ثالثی کا معاملہ نمٹ چکا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سنیں گے مگر ہمیں پتہ تو چلے کہ ہمارے سامنے درخواست کیا ہے، اس وقت آپ عدالت کے سامنے میرٹ کی درخواست پر موجود نہیں ہیں، ہمارے سامنے متفرق درخواست ہی ہے۔
براڈ شیٹ کمپنی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ والیم 10 میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے۔
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے استفسار کیا کہ 5 رکنی بینچ نے پانامہ فیصلے میں والیم 10 کے بارے میں کوئی آبرویشن دی تھی؟ اس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کیسے ملک کو لوٹا گیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے، اس میں تو ایک منتخب وزیرِاعظم کو ہٹایا گیا، آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا، وہاں معاملہ نمٹ چُکا اب تو آپ کی درخواست غیرمؤثر ہوگئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ براڈ شیٹ کو ریکورکی جانے والی پراپرٹی سے 20 فیصد حصہ مل چُکا، 28 ملین ڈالر دیے گئے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ معاہدہ یہی تھا کہ شریف فیملی کی پراپراٹی سے ریکور 20 فیصد حصہ کمپنی کو ملے گا، پاکستان عوام کا 80 فیصد حصہ کہاں ہے؟۔
اس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ پاکستانی عوام کی نہیں ااپنے موکل براڈ شیٹ کی بات کریں، اگر والیم 10 میں کچھ بھی ہوتا تو پاناما کا 5 رکنی بینچ ضرور لکھتا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ براڈ شیٹ اب والیم 10 سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی، ان کی حد تک معاملہ نمٹ چکا ہے۔ دوسرا فریق نیب ہے اور وہ ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا 5 رکنی پاناما بینچ نے والیم 10 سے متعلق کچھ لکھا۔ براڈ شیٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس بینچ نے والیم 10 کو سیل ہی کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملے پر آپ 184/3 کے تحت درخواست لاسکتے ہیں، مسٹراسٹیورٹ کے کندھے پر رکھ کر مفاد عامہ کی بات نہ کریں۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ لطیف کھوسہ صاحب کیس میں وکالت کیلئے آپ کا پاور آف اٹارنی تو دفتر خارجہ سے تصدیق شدہ ہی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیا آپ پاناما فیصلے پر دوبارہ نظرثانی کرانا چاہتے ہیں؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہیں، پاناما فیصلے میں جانا نہیں چاہتا، مجھے پاناما فیصلے کے تحت نااہلی کی پرواہ نہیں ہے، شریف فیملی آخراتنی طاقتور کیوں ہے کہ ہر ادارے کو قابو میں کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، ’سردار صاحب انگریزی کا لفظ ہے ریلیکس، آپ ریلیکس کریں یا پھر ہم ٹھنڈا پانی پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاناما کے 5 رکنی بینچ نے والیم 10 پر کچھ نہیں لکھا، آپ نے کوئی الگ درخواست دائرکرنی ہے تو کریں، براڈ شیٹ کی درخواست پر ہم اس معاملے میں نہیں جا رہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہنے ریمارکس دیے کہ ، ’ براڈ شیٹ پاکستانی عوام کی نمائندہ نہیں ہے’۔
اس کے بعد براڈ شیٹ کی جانب سے والیم 10 کا ریکارڈ حاصل کرنے کی درخواست واپس لے لینے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی۔
سپریم کورٹ میں ن لیگ کی چیف آگنائزر مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے حوالے سے نیب کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
نیب نے مریم نوازکے خلاف درخواست واپس لے لی، اور عدالت نے مریم نوازکے خلاف درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔
نیب نے کیس میں تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا، تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب پروسیکیوٹر کو تحریری جواب پڑھنے کی ہدایت کی۔
نیب پروسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز کا کیس نیب ترامیم کے بعد قابل سماعت نہیں رہا، درخواست خارج کرنے کی بجائے نمٹا دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست نمٹائیں گے تو آپ کو پسند آئے گا۔
عدالت نے مریم نواز کے خلاف نیب درخواست خارج کرتےہوئےکیس نمٹا دیا۔
واضح رہے کہ مریم نواز پر شمیم شوگر ملز کیس میں آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ہے، اور نیب نے شمیم شوگر ملزکیس میں مریم نواز کی ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کی تھی۔