خیبرپختوںخواہ کے ضلع بٹ گرام میں آلائی جھنگڑئے پاشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے پھنسنے والی چئیر لفٹ سے لوگوں کو نکالنے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ دریا کے اوپر بلندی پر پھنسی ہوئی چئیر لفٹ میں نویں جماعت کے 8 طلباء سوار تھے، جنہیں گھنٹوں کی مشقت کے بعد بچا لیا گیا۔
فضائی آپریشن کے دوران پاک فوج کے کمانڈوز نے چیئرلفٹ تک پہنچ کر 2 بچوں کو نکالا، جس کے بعد فضائی آپریشن معطل کرکے زمینی آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
زمینی آپریشن شروع ہونے کے بعد اندھیرے کے باوجود باقی بچوں کو بچایا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق تمام بچوں کو باحفاظت ریسکیو کیا جاچکا ہے۔
بٹگرام چئیر لفٹ ریسکیو آپریشن میں جن افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے اُن مٰں سے 5 کے نام یہ ہیں۔
فضائی ریسکیو آپریشن میں 3 ہیلی کاپٹرز حصہ لے رہے تھے۔
کمانڈوز نے ایک ’سلنگ آپریشن‘ کیا جس میں اسکول کے دو بچوں کو کیبل کار سے محفوظ فاصلے پر منڈلاتے ہیلی کاپٹر سے جڑی رسی سے باندھ کر زمین تک پہنچایا گیا۔
موقع پر موجود مولانا کفایت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب لوگ مایوس ہورہے تھے تواس وقت ہیلی کاپٹر ڈولی کے قریب پہنچا اس میں سے ایک کمانڈو باہر نکل کر رسی کی مدد سے ڈولی تک پہنچا اور اس نے ایک بچے کو اپنے بازوؤں میں لیا اور اس کو ہیلی کاپٹر تک پہنچا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بچے کو ڈولی سے نکالنے کے بعد دوبارہ وہ رسی سے نیچے اترا اور ایک اور بچے کو لے کر ہیلی کاپٹر میں چلا گیا۔
ایس ایس جی کمانڈوز ہیلی کاپٹر سے ہارنیس کے زریعے کیبل کار تک پہنچے اور بچوں کو نکال پر ہیلی کاپٹر سے زمین پر باحفاظت پہنچایا۔
دورانِ ریسکیو حکام نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کے قریب جانے سے لفٹ ہلنا شروع ہوجاتی ہے، اوپر 30 فٹ کی بلندی پر ایک اور تار کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بٹگرام چئیرلفٹ میں پھنسے 3 بچے نمایاں نمبر لے کر نویں جماعت میں کامیاب
دو بچوں کو ریسکیو کرنے کے بعد رات اور موسم کے باعث فضائی آپریشن معطل کردیا گیا اور اس کی جگہ گراؤنڈ سے آپریشن شروع کر دیا گیا۔
پاکستان آرمی کے زمینی ریسکیو آپریشن میں ایک اور چھوٹی ڈولی کو اسی تار پر ڈال کر متاثرہ ڈولی کے قریب لایا گیا جس سے ایک ایک کر کے سب کو ریسکیو کیا جانا تھا۔
چھوٹی ڈولی سے کھانے پینے کی ایشیاء بھی بھیجی گئیں۔
پاک فوج اس آپریشن کے لئے شمالی علاقہ جات سے لوکل کیبل کراسنگز ایکسپرٹ کو لے کر آئی جن کی خدمات بھی بروئے کار لائی گئیں۔
ڈی آئی جی ہزارہ طاہر ایوب کے مطابق پھنسےافراد کو ہیلی کاپٹر سے ادویات اور کھانا پہنچانے کے بعد جائے حادثہ کے سامنے پہاڑ پر ہیلی پیڈ قائم کیا گیا تھا۔
طاہر ایوب کے مطابق ہیلی پیڈ پر تمام ایمرجنسی سامان سے لیس گاڑی موجود رہی۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کی کامیابی پر تمام افراد کا پہلے مکمل چیک اپ ہوگا، طبی مسائل ہوئے تو متاثرین کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔
دوسری جانب اسی دوران مفتی غلام اللہ نے چئیرلفٹ میں پھنسے گل فراز سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ خوراک کا ابھی تک کوٸی بندوبست نہیں کیا گیا۔
این ڈی ایم اے کے مطابق چیئرلفٹ 900 فٹ کی بلندی پر پھنسی ہوئی تھی، اور لفٹ کے اندر 2 اساتذہ اور 6 طلبہ موجود تھے۔
طلبہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر واقع اسکول تک جا رہے تھے جن کے بیچ میں ”جھنگڑے خور“ نامی ایک ندی ہے۔ جسے پار کرنے کیلئے چئیر لفٹ بنائی گئی ہے۔
چئیرلفٹ کی اونچائی کے حوالے سے مختلف میڈیا اور سرکاری رپورٹس میں تضاد نظر آیا۔ تاہم آج ڈیجیٹل نے تکنیکی طور پر صحیح اونچائی کا پتا لگایا جو تقریباً 700 فٹ بنتی ہے۔ جس کی تصدیق آئی ایس پی آر نے بھی کی۔
کیبل کار کو جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہ ضلع آلائی کا ایک دوردراز علاقہ ہے جہاں جانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کو ملانے کے لیے مقامی طور پر ایک چیئرلفٹ نصب کی گئی تھی۔
ڈولی میں پھنسے طلبا کا تعلق جانگری سے ہے اور وہ بٹنگی میں واقع سکول جا رہے تھے۔
جانگری سے بٹنگی تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کیبل کار کی مدد سے یہ فاصلہ چند منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔
ایڈیشنل ایس ایچ او بٹنگی محبت شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نزدیکی ضلع بٹگرام کے ایک مقامی مکینک نے یہ کیبل کار نما لفٹ بنائی تھی جس کے لیے اس نے مقامی انتظامیہ سے این او سی بھی حاصل کر رکھا ہے۔
لوگ اس لفٹ کے ذریعے سفر کرتے تھے کیونکہ انھیں اس لفٹ کے ذریعے ’بٹنگی‘ تک پہنچنے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق آج صبح اس کیبل کار نے حادثے کا شکار ہونے سے قبل دونوں گاؤں کے درمیان چار چکر لگائے تھے اور پانچویں مرتبہ بچوں کو لے جاتے ہوئے اس کی رسی ٹوٹ گئی۔
منگل کی صبح خبر ملتے ہی چیئر لفٹ میں پھنسے طلبہ کو نکالنے کے لئے مساجد سے اعلانات شروع کردیئے گئے، جس کے بعد آپریشن کے لئے عوام، انتظامیہ اور ریسکیو کی ٹیمیں بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئیں۔
کمشنر ہزارہ کی درخواست پر پاک فوج کا ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے لئے جائے وقوعہ پر پہنچا اور آپریشن شروع کردیا۔
پاک فوج کے ہیلی کاپٹر سے لٹکی رسی کے ذریعے دو کمانڈوز لفٹ کے پاس پہنچے اور معائنہ کیا، کمانڈوز نے لفٹ میں موجود افراد کا جائزہ لیا، اور حکام کو رپورٹ کی، جس کے بعد جہاز لینڈ کرگیا۔
ریسکیو آپریشن میں شامل کمانڈوز کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر سلنگ آپریشن کے لئے ریکی کرے گا، کیونکہ چیئر لفٹ کی تین میں سے دو تاریں ٹوٹ چکی ہیں، اور ہیلی کاپٹر سے پیدا ہونے والے ہوائی پریشر سے اکیلی بچ جانے والی تار بھی ٹوٹ سکتی ہے، اس لئے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کو انتہائی محتاط انداز میں کئے جانے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں، جنہیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ”ڈولی“ کہا جاتا ہے۔ جو پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقےجہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہ ہوں وہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔
پہاڑی علاقوں میں چونکہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کے درمیان آبی گزرگاہیں موجود ہوتی ہیں یا بعض اوقات ایک گاؤں ایک پہاڑ پر جبکہ نزدیک ترین گاؤں دوسرے پہاڑ پر موجود ہوتا ہے، اس لیے وقت کی بچت کے لیے مقامی افراد عموماً ڈولی کو ہی آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔
ڈولی عمومی طور پر کسی بھی پرانی اور ناکارہ گاڑی کے ڈھانچے میں مناسب تبدیلیاں کر کے بنائی جاتی ہے۔
اسے آپریٹ کرنے کے لیے عمومی طور پر علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لیا جاتا ہے۔ مقامی افراد عمومی طور اپنی آمد و رفت کے حساب سے آپریٹر کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کر لیتے ہیں جو ادا کیا جاتا ہے۔
چئیر لفٹ کی ڈولی کا سائز 6 بائی 4 ہوتی ہے اور فی کس کرایہ کم از کم 50 روپے لیا جاتا ہے۔
ڈولی میں بیک وقت چھ سے آٹھ افراد سوار ہوکر سفر کر سکتے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے چئیر لفٹ کی کوئی مینٹننس نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز واقعات معمول بن گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
بٹگرام چیئر لفٹ میں بچہ دل کا مریض اور 3 گھنٹے سے بے ہوش ہے، گلفراز کا بیان
بٹگرام : چیئرلفٹ میں پھنسے بچے کا والد جذباتی ہوگیا
نمائندہ آج نیوز کے مطابق لفٹ میں پھنسنے والوں میں نویں کلاس کے 8 طلباء شامل ہیں، جن میں ابرار ولد عبدالغنی، عرفان ولد امریز، گلفراز ولد حکیم داد، اسامہ ولد محمد شریف، رضوان اللہ ولد عبدالقیوم، عطاء اللہ ولد کفایت اللہ، نیاز محمد ولد عمر زیب اور شیر نواز ولد شاہ نظر شامل ہیں۔
لفٹ میں موجود رضوان اللہ کے والد عبدالقیوم نے ”آج نیوز“ سے خصوصی بات کرتے ہوئے بتایا کہ صبح 7 بجے بچہ اسکول کے لئے نکلا تھا اور لفٹ میں پھنس گیا۔
عبدالقیوم نے بتایا انتطامیہ 7 گھنٹے تک نہیں پہنچی، اور ہم پریشان ہیں کہ کیا کریں، آپریشن بہت تاخیر سے شروع کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پریشانی بڑھ گئی ہے کیوں کہ بچے بھوکے ہیں اور خوف میں مبتلا ہوں گے۔
کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی چیئرلفٹ میں پھنسے اساتذہ اور طلبا مدد کے منتظر ہیں، ریسکیو ٹیم کے رکن نسیم نے ”آج نیوز“ کو بتایا کہ کہ چیئر لفٹ صرف ایک کیبل پر لٹکی ہوئی ہے، ہیلی کاپٹر کے بغیر ریسکیو کی کوشش کی تو تیسری کیبل بھی ٹوٹ سکتی ہے، چیئرلفٹ سے بچوں کو نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر ضروری ہے۔
ڈپٹی کمشنر بٹگرام حماد حیدر نے ”آج نیوز“ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پشاور سے ہیلی کاپٹر سے منگوائے ہیں، 2 ہزار فٹ اونچائی پر آپریشن کرنا ہے، ہم کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتے۔
اس سے قبل کمشنر ہزارہ نے آپریشن کے لئے سیکرٹری خیبر پختون خوا، چیئرمین این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو خط لکھا، تاہم کمشنر کے خط کا تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔
کمشنر ہزارہ نے کورکمانڈر پشاور سے بھی فوری طور پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو ریسکیو کے احکامات دیے اور کہا کہ کے پی میں چیئرلفٹ حادثہ الارمنگ واقعہ ہے۔
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ میں نے تمام پرائیوٹ چیئرلفٹس کی انسپیکشن کی بھی ہدایت کردی ہے، یقینی بنائے جائے گا کہ تمام چیئرلفٹس پر سفر محفوظ ہو۔