ممتاز ماہر قانون شاہ خاور نے صدر پاکستان کے گزشتہ روز کے بیان پر کہا ہے کہ ایک طرف صدر دستخط نہ کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں اور دوسری جانب وہ قانون بننے پر معافی بھی مانگ رہے ہیں، وہ دو باتیں کر رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے۔
گزشتہ روز صدر مملکت عارف علوی نے ایک ٹویٹ میں آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تو ان قوانین سے اختلاف کرتا ہوں، میں عملے کو بل واپس بھیجنے کا کہنا تھا لیکن اس نے حکم عدولی کی۔
صدر کے اس بیان پر ملکی سیاستدانوں میں اور قانونی ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اور اب تک درجنوں سیاستدانوں، قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے بیانات جاری ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت درج مقدمات سننے کیلئے خصوصی عدالت قائم
سابق وزیرداخلہ خواجہ آصف نے صدر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے، صدر نے بلز کی منظوری نہیں دی اور نہ ہی بل واپس کیا، تو یہ خاموشی تصور ہوگی، اور خاموشی کا مطلب رضا مندی ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر
ممتاز ماہر قانون شاہ خاور نے صدر عارف علوی کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدرپاکستان نے بہت حساس بات کی ہے، ایک طرف صدر کہہ رہے کہ دستخط نہیں کٸے، اور دوسرے طرف کہہ رہے کہ قانون بن گیا ہے اور معافی بھی مانگ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: صدرعارف علوی نےآفیشل سیکرٹ اورآرمی ایکٹ بلز پردستخط کردیے، دونوں قوانین میں ترمیم نافذ
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان نے ایک نہیں دو باتیں کی ہیں، معاملے کی جوڈیشل انکواٸری کرائی جانی چاہیے۔
ماہر قانون ایڈوکیٹ ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ صدرپاکستان کا آفس ایک معتبر آفس ہے، اگر بلز پر جعلی دستخط ہوئے ہیں تو ملوث شخص کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، معاملے پر اقوام متحدہ کی مدد لی جا سکتی ہے۔
اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اورآرمی ترمیمی ایکٹ انتہاٸی اہم بل تھے،صدر کو معاملے پر فوری ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنا چاہیے تھا۔