محکمہ صحت سندھ نے انکشاف کیا ہے کہ مقتولہ فاطمہ فرڑو کا علاج کرنے والا ڈسپنسر امتیاز میراسی نائب قاصد ہے، دوسری جانب متوفی بچی کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی ملزم اسد شاہ ڈارک ویب کا رکن ہے۔
گزشتہ ہفتے رانی پور میں بااثر پیر کے گھر جنسی زیادتی اور تشدد سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ فاطمہ کے مبینہ قتل میں گرفتار مرکزی ملزم اسد شاہ کو مقامی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
رانی پور کی عدالت نے پیر اسد شاہ کو مزید پانچ روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
پولیس نے عدالت سے دس روز کے ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ تاہم عدالت نے صرف پانچ دن کا ہی ریمانڈ دیا۔
ملزم اسد شاہ کے وکیل نے مزید پولیس ریمانڈ کی مخالفت کی اور اپنے مؤکل کو جیل بھیجنے کی درخواست کی لیکن عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کر دی۔
فاطمہ کے والدین کی جانب سے ساھتی لائرز فورم نے پیروی کی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ایف آئی آر میں نامزد حنا شاہ کا شناختی کارڈ بلاک کیا جائے۔
وکلا نے استدعا کی کہ پولیس کو ہدایت کی جائے کہ وہ ہائی کورٹ میں اس سے متعلق درخواست دائر کرے۔
وکلا کے مطابق حفاظتی ضمانت کے بعد ملزمہ حنا شاہ نہ تو تحقیقاتی کمیٹی سے رابطے میں آئی ہیں اور نہ ہی انہوں نے ماتحت عدالت سے رابطہ کیا ہے۔ لہٰذا انھیں شبہ ہے کہ وہ بیرون ملک فرار ہوسکتی ہیں۔
ساھتی لائرز کے وکلا نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں شبہ ہے کہ ملزم اسد کا تعلق ’ڈارک ویب‘ سے ہے اور وہ اس قسم کی ویڈیوز بنا کر فروخت کرتے ہیں جس کے بارے میں پولیس کو تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔
پولیس نے اسد شاہ کی حویلی سے بازیاب ہونے والی بچیوں اور تین خواتین کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا، جب کہ متوفی بچی فاطمہ فرڑو کے والدین اور وکلا کی ٹیم بھی پیش ہوئے۔
مرکزی ملزم سید اسد شاہ 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حوالے تھا۔
فاطمہ کے والدین کے وکیل میر امتیاز میمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ اطلاعات ملی ہیں اسد شاہ ڈارک ویب کا رکن ہے، یہ لوگ بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو بنا کر اپلوڈ کرتے ہیں، اور یہ ڈارک ویب کی ویڈیوز ریکارڈ کرکے بیچتا ہے۔
وکیل نے دعویٰ کیا کہ پولیس ملزم اسد شاہ کو رات کے وقت بنگلے میں رکھتی ہے، اور صبح ہوتے ہی عوام کے ڈر سے اسے تھانے لایا جاتا ہے۔
متوفی فاطمہ کی والدہ نے عدالت کے باہر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اس قاتل پیر کو کبھی بھی نہیں بخشوں گی، اس کو پھانسی تک پہنچاکر دم لوں گی، اب کوئی ڈر نہیں، اگر جان بھی چلی جائے تو بھی پرواہ نہیں۔
تشدد سے جاں بحق ہونے والی بچی فاطمہ کا حویلی کے اندر علاج کرنے والے امتیاز میراسی نامی شخص کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ بچی کو دوائیں دینے والا شخص ڈسپنسر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے۔
مزید پڑھیں: رانی پور ملازمہ ہلاکت کیس: حویلی سے بھاگنے والی ایک اور لڑکی کے انکشافات
محکمہ صحت سندھ نے تصدیق کی ہے کہ امتیاز میراسی محکمہ ہیلتھ میں ڈسپنسر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے۔
دو روز قبل پولیس نے ملزم اسد شاہ سے تفتیش کے بعد رانی پور اسپتال کا ڈسپنسرگرفتارکیا تھا، اور پولیس ذرائع نے بتایا تھا کہ ڈسپنسر امتیاز میراسی فاطمہ کا گھر پرعلاج کرتا تھا۔
ایف آئی آر میں نامزد ملزم اسد شاہ نے پولیس کو بتایا کہ رانی پور سرکاری اسپتال کا ڈسپنسر علاج کیلئے آتا رہا تھا۔
متوفی 10 سالہ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ”آج نیوز“ نے حاصل کرلی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ لاش کے ڈی کمپوزیشن کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا، چہرے کے دائیں جانب کے حصے پر نیل کے نشانات تھے، جب کہ ناک اور کانوں سے خون ٹپک رہا تھا۔
مزید پڑھیں: رانی پور میں 10 سالہ فاطمہ کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم مکمل، لاش پر تشدد کے نشانات
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، بچی کی زبان اس کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی، اس کی پیشانی کی دائیں جانب چوٹ کے نشانات تھے، سینے کے دائیں جانب اوپر کی طرف بھی زخموں کے نشان تھے، اور ٹیشوز کے نیچے خون بھی جمع تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے بچی کمر کے درمیان 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم کے نشان تھے، کمر کے نچلی جانب بھی 6 سینٹی میٹر زخم کا نشان تھا، کمر کے بائیں جانب 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے لیکر بازو تک 10سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر بھی 6 سینٹی میٹر کے زخم کا نشان تھا۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کے بائیں ہاتھ میں سوراخ کرنے کے نشان بھی تھے، اور تمام زخم موت سے پہلے کے ہیں، بچی کے سر پر بھی چوٹیں ہیں، جب کہ رپورٹ کے مطابق بچی سے زیادتی کی گئی ہے۔