آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف متفرق درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردی گئی، درخواست کے حتمی فیصلے تک آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو معطل کرنے کی استدعا کر دی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ میں آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف متفرق درخواست دائر کی گئی ہے، محمد مقسط سلیم ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، وفاقی وزارت قانون اور داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر عارف علوی کا بیان سامنے آیا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر دستخط نہیں کئے، ایکٹ درست طریقہ کار کے مطابق پاس نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: صدر نے بلز واپس نہیں بھجوائے، 10 دن میں خودبخود قانون بن گئے، نگراں وزیر قانون
درخواست میں یہ بھی مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ ماورائے آئین ہے، ایکٹ کے تحت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر آئینی اختیارات دے دئیے گئے ہیں، جس کے تحت پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی شہری کے گھر بلا وارنٹ داخل ہوسکتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نئے قانون کے تحت گرفتار فرد کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنا لازم نہیں، جب کہ آئین کا آرٹیکل چار تا انیس اے شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت آفیشنل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کی شق 2، 4 اور 11 کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم کرے، اور عدالتی فیصلہ آنے تک قانون پر عملدرآمد روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا جائے۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کی منظوری دے دی
واضح رہے کہ آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل کے قانون بننے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے، تاہم صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز ایک ٹویٹ میں آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تو ان قوانین سے اختلاف کرتا ہوں، میں عملے کو بل واپس بھیجنے کا کہنا تھا لیکن اس نے حکم عدولی کی۔
بل میں حساس اداروں، مخبروں اور ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
سیکشن 6 اے (غیر مجاز طور پر شناخت ظاہر کرنا) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔
سیکشن 8 اے میں ”دشمن“ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’کوئی بھی وہ شخص جو بلواسطہ یا بلا واسطہ، جانے یا انجانے میں بیرونی قوت، ایجنٹ، نان اسٹیٹ ایکٹر، ادارے، ایسوسی ایشن یا گروپ جس کا مقصد پاکستان کے مفاد اور تحفظ کو نقصان پہنچانا ہو، اس کے ساتھ کام کرتا ہو‘۔
سیکشن 9 کے مطابق جرم پر اُکسانے، سازش یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر وہی سزا دی جائے گی۔
تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی ایک شق کو مبصرین نے زیادہ متنازع قرار دیا تھا۔
سرچ وارنٹ سے متعلق شق میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس ادارے کسی جرم یا جرم کے شبے میں ’ضرورت پڑنے پر بغیر وارنٹ طاقت کے زور پر کسی بھی وقت کسی شخص یا جگہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔‘
ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے گریڈ 17 یا اوپر کے افسر کو ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔
ڈی جے ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی اے اور حساس اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا سکتے ہیں، مگر ایف آئی اے کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنا ہوں گی۔
انٹیلی جنس ادارے (آئی بی اور آئی ایس آئی) شک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے دستاویزات، نقشے، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، ہتھیار یا الیکٹرانک آلات ضبط کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔
ایسی الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا دیگر مواد جو تحقیقات کے دوران حاصل کیے گئے اور ان سے جرم کے ارتکاب میں سہولت کاری کی گئی، انہیں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔
سیکشن 3 کا نام ”جاسوسی کی سزا“ سے بدل کر ”جرائم“ رکھا جا رہا ہے۔
موجودہ جرائم میں معمولی ترامیم کے ساتھ اس نے ممنوعہ علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعے تصویر کشی کو بھی جرم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا، اور ”ان مینڈ وہیکل“ یا ڈرون کی مدد سے ممنوع علاقوں کا جائزہ لینے پر پابندی ہوگی۔
اس کے تحت افواج کی صلاحیت سے جڑی کسی سرگرمی، دستاویزات، ایجاد یا ہتھیار وغیرہ تک غیر مجاز رسائی غیر قانونی ہوگی۔