چلاس میں بابوسر ٹاپ کے قریب ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک پروفیسر کی ہلاکت کی تفصیلات منظر عام پر آگئی ہیں۔
قبل ازیں پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ جاں بحق شخص ایک سیاح ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔
لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے مارے گئے شخص پروفیسر راشد ہیں جو بلتستان یونیورسٹی میں تعینات تھے اور انہوں نے حال ہی میں کامیابی سے وہاں میڈیکل ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا۔
مقتول پروفیسر کے سابق ساتھی ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا ہے کہ حاجی محمد راشد کا تعلق جامہر گاؤں ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی سے ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ یونیورسٹی آف ہری پور میں پروفیسر ہیں اور انہوں نے بتایا کہ محمد راشد یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ تھے، وہاں سے انہوں نے یونیورسٹی آف ہری پور کو جوائن کیا اور تقریباً 9 برس تک یہاں لیکچرار رہے۔ پروفیسر راشد پر یونیورسٹی آف ہری پور میں میڈیکل ٹیکنالوجی لیبارٹری ڈیپارٹمنٹ کے بانی اراکین میں سے تھے۔
ڈاکٹر عبداللہ کے مطابق اس کے بعد پروفیسر راشد یونیورسٹی آف سیالکوٹ چلے گئے، وہاں بھی انہیں ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی ذمہ داری دی گئی اور انہوں نے ایکٹنگ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے طور پر کام بھی کیا۔
ڈاکٹر عبداللہ نے بتایا کہ تقریباً چھ سات ماہ سے یونیورسٹی آف بلتستان راشد سے رابطے میں تھی، وہاں پر بھی میڈیکل ٹیکنالوجی لیبارٹری کا ڈیپارٹمنٹ قائم کروانا تھا، راشد وہاں چلے گئے اور چھ ماہ میں ڈیپارٹمنٹ قائم کردیا اور وہیں پر موجود تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دریائے ستلج میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کی خبروں کے بعد ڈاکٹر راشد وہاں سے ایمرجنسی میں نکلے، کیونکہ ان کے اہل خانہ وہاڑی کی تحصیل میلسی میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا علاقہ دریا کے قریب واقع ہے۔
ان کی روانگی کا مقصد اہل خانہ کو سیلابی علاقے سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کرنا تھا۔
لیکن بابوسر روڈ پر جب ان کی گاڑی پہنچی تو رات 9:35 کے قریب ڈاکوؤں نے انہیں گولی مارکر ہلاک کردیا۔
مقامی اخبار پامیرٹائمز کے مطابق کہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب مبینہ ڈاکوؤں کے گروہ نے ڈکیتی کے لیے گاڑیوں کو روکنے کے لیے سڑک پر پتھر ڈال کر سڑک بلاک کردی تھی۔
اخبار کے مطابق گاڑی نمبر AMY-406 کو اسکردو کا ایک رہائشی چلا رہا تھا، پروفیسر راشد بھی اسی گاڑی میں موجود تھے، جب ڈرائیور نے گاڑی بھگانے کی کوشش کی تو ڈاکوؤں نے فائرنگ کردی جس سے حاجی محمد راشد جاں بحق ہوئے۔
فائرنگ سے کار ڈرائیور بھی زخمی ہوا۔ جبکہ گاڑی میں سوار دیگر چار مسافر محفوظ رہے۔
زندہ بچ جانے والوں کی شناخت زاہد حسین (ڈرائیور، اسکردو)، احتشام (شگر)، سید انیس (شگر) اور سجاد (خپل) کے نام سے ہوئی ہے۔
مقتول راشد کی میت پیر کی صبح ان کے آبائی گاؤں روانہ کردی گئی۔ لیکن شام تک وہ ناران کاغان پہنچی تھی۔ وہاں سے راولپنڈی اور پھر میلسی کا طویل سفر باقی تھا۔
پروفیسر راشد کی میت کے ہمراہ ان کے دو ساتھی، ریسکیو اور پولیس اہلکار روانہ ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ کے مطابق پروفیسر راشد کے اہلخانہ کو خدشہ ہے کہ طویل سفر کے باعث میت خراب ہوسکتی ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جب ان کے علاقے میں سیلابی صورتحال ہے، اس لئے اہل خانہ کا حکام سے مطالبہ ہے کہ ان کا جسد خاکی ائر لفٹ کے زریعے جلد از جلد آبائی علاقے میں پہنچایا جائے، تاکہ آخری رسومات اور تدفین کے مراحل ادا کیے جاسکیں۔